Friday, November 13, 2009

کرکٹ

اچھے سکولوں میں شروع سے ہی تربیت دی جاتی ہے کہ جس طرح مرغابی پر پانی کی بوند نہیں ٹھہرتی، اسی طرح اچھے کھلاڑی پر ناکامی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض کمزور طبیعتیں اس نصیحت کا اس قدر اثر لیتی ہیں کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو جاتی ہیں لیکن اگر کھلے خزانے پہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سے عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ و تقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ ، جھٹ چوبی بساط جیتنے والے کے سر پر دے ماری جس سے اس گستاخ کی موت واقع ہو گئی۔ مورخین اس باب میں خاموش ہیں مگر قیاس کہتا ہے کہ درباریوں نے یوں بات بنائی ہو گی۔
"سرکار ! یہ تو بہت ہی کم ظرف نکلا۔ جیت کی ذرا تاب نہ لا سکا، شادی مرگ ہو گیا۔"
یہی قصہ ایک دن نمک مرچ لگا کر ہم نے مرزا کو سنایا، بگڑ گئے۔ کہنے لگے۔ "آپ بڑا فلسفہ چھانٹتے ہیں مگر یہ ایک فلسفی کا ہی قول ہے کہ کوئی قوم سیاسی عظمت کی قائل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس نے کسی نہ کسی عہد میں اپنے کھیل کا لوہا نہ منوایا ہو۔"
ہم نے چھیڑا۔ "مگر قومیں پٹ پٹ کر ہی ہیکڑ ہوتی ہیں۔"
قوموں کو جہاں کا تہاں چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئے۔ "جس شخص نے عمر بھر اپنے دامن صحت کو ہر قسم کی کسرت اور کھیل سے بچائے رکھا، وہ غریب کھیل کی اسپرٹ کو کیا جانے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ مذکور الصدر مقام پر ہر ہفتے دوستانہ میچ ہوتے رہتے ہیں۔ (دوستانہ میچ سے مراد ایسا میچ ہے جس میں لوگ ہار کر بھی قائل نہیں ہوتے) ابھی گزشتہ سنیچر کو عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو پوری نو وکٹوں سے شکست دی تھی اور پرسوں ان کی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور ان کی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے تھے۔ ہم نے کچھ ہچر مچر کی تو آنکھ مار کر کہنے لگے۔
"بے پردگی کا خاص انتظام ہو گا، ضرور آنا۔"
ہم ناشتہ کرتے ہی بغدادی جیم خانہ پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق کھیل ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہیے تھا مگر ایمپائر کا سفید کوٹ استری ہو کر دیر سے آیا اس لئے چھپے ہوئے پروگرام کی بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلی کھاتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پندرہ منٹ کی ردوکد کے بعد یہ طے پایا کہ جو ٹیم "ٹاس" ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدار روپیہ کھنکا، تالیاں بجیں، معطر رومال ہوا میں لہرائے اور مرزا کسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔
ہم نے دعا دی۔ "خدا کرے ، تم واپس نہ آؤ۔"
مرزا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور چلتے چلتے پھر تاکید کی۔ "کرکٹ مت دیکھو، کرکٹ کی اسپرٹ دیکھو۔"
ہم یہ بتانا بھول ہی گئے کہ روانہ ہونے سے قبل مرزا نے اپنے بلے پر جملہ تماشائیوں کے دستخط لئے۔ ایک خاتون نے (جو کسی طرف سے ان پڑھ معلوم نہں ہوتی تھیں) دستخط کی جگہ بلے پر اپنے ترشے ترشائے سرخ سرخ ہونٹ ثبت کر دئیے اور مرزا پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے وکٹ تک پہنچے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سارا راستہ الٹے قدموں طے کیا اور اگر بیچ میں وکٹ سے ٹکر نہ ہوتی تو شاید ساری فیلڈ اسی طرح پار کر جاتے۔
مرزا نے کرکٹ میں بھی وہی تیہا اور تیور دکھائے جو ہم ان کے مچیٹوں اور معاشقوں میں دیکھتے چلے آئے تھے، یعنی تکنیک کم اور جوش زیادہ۔ ۔ ۔ ۔ روانگی سے چند منٹ پہلے پیڈ کے تسمے باندھتے ہوئے انہوں نے ایک مرکھنے سے کلرک کو یہ ہتھکنڈہ بتایا کہ چھکا لگانے کی سہل ترکیب یہ ہے کہ خوب کس کے ہٹ جاؤ۔ کلرک نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔
"یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ زور کا ہٹ کس طرح لگایا جائے؟"
مرزا اپنی بڑی بڑی آنکھیں لال کرکے بولے ۔ "میں تو یہ کرتا ہوں کہ ہٹ لگاتے ہوئے آنکھ میچ کر اپنے افسر کا تصور کرتا ہوں۔ خدائی کی قسم ، ایسے زور کا ہٹ لگتا ہے کہ گیند تارا ہو جاتی ہے۔"
مرزا کے کھیلنے بلکہ نہ کھیلنے کا انداز دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا کہ افسر کا ایک فوٹو نہیں بلکہ پورا کا پورا البم ان کی آنکھوں میں پھر رہا ہے اس لئے کہ وہ بلے کو پوری طاقت کے ساتھ گوپھن کی طرح گھمائے جا رہے تھے۔ تین اوور اسی طرح خالی گئے اور گیند کو ایک دفعہ بھی بلے سے ہمکنار ہونے کا موقع نہیں ملا۔ مرزا کے مسکرانے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ اس صورت حال کو بولر کی نالائقی سے زیادہ اپنے استادانہ ہتھکنڈوں پر محمول کر رہے ہیں مگر اتفاق سے چوتھے اوور میں ایک گیند سیدھی بلے پر جا لگی۔ مرزا پوری طاقت سے بلا دور پھینک کر چیخے۔
"ہاؤ ازٹ؟"
ایمپائر دوڑا دوڑا آیا، بلا اٹھا کر انہیں پکڑایا اور بڑی مشکل سے سمجھا سمجھا کر دوبارہ کھیلنے پر رضامند کیا۔
مصیبت اصل میں یہ تھی کہ مخالف ٹیم کا لمبا تڑنگا بولر، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو پورے ایک فرلانگ سے ٹہلتا ہوا آتا۔ ایک بارکی جھٹکے کے ساتھ رک کر کھنکارتا ، پھر خلاف توقع نہایت تیزی سے گیند پھینکتا۔ اس کے علاوہ حالانکہ صرف دائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا مگر گیند بائیں ہاتھ سے پھینکتا تھا۔ مرزا کا خیال تھا کہ اس بے ایمان نے یہ چکرا دینے والی صورت انتقاماً بنا رکھی ہے لیکن ایک مرزا ہی پر موقوف نہیں، کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ گیند کیسے اور کہاں پھینکے گا بلکہ اس کی صورت دیکھ کر کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتا تھا کہ اللہ جانے پھینکے گا بھی یا نہیں۔"؟۔۔۔۔۔۔واقعہ یہ ہےکہ اس نے گیند سے اتنے وکٹ نہیں لئے جتنے گیند پھینکنےکے انداز سے۔۔۔ بقول مرزا۔
"مشاق بولر سے کوئی خائف نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وکٹ ہی تو لے سکتا ہے، جان تو اناڑی سے نکلتی ہے۔"
سبھی کے چھکے چھوٹ گئے۔ گیند پھینکنے سے پہلے جب وہ اپنی ڈھائی گھر کی چال سے لہریا بناتا ہوا آتا تو اچھے اچھوں کے بلے ہاتھ کے ہاتھ میں رہ جاتے۔ ۔ ۔۔ ۔۔
؂
آگے بڑھا کوئی ، تو کوئی ڈر کےرہ گیا
سکتے میں کوئی ، منہ پہ نظر کرکے رہ گیا
ہر مرتبہ ظالم کچھ ایسے غیر پیشہ وارانہ جذبے اور جوش کے ساتھ کچکچا کے گیند پھینکتا ، گویا یہ وہ پہلا پتھر ہے جس سے ایک گنہگار دوسرے گنہگار کو سنگ سار کرنے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مرزا انتہائی دندان شکن حالات میں ڈنڈے گاڑے کھڑے تھے لیکن یہ درست ہے کہ رن نہ بننے کی بڑی وجہ مرزا کے اپنے پینترے تھے۔ وہ اپنا وکٹ ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ وہ کرتے یہ تھے کہ اگر گیند اپنی طرف آتی ہوتی تو صاف ٹل جاتے لیکن اگر ٹیڑھی آتی دکھائی دیتی تو اس کے پیچھے بلا لے کر نہایت جوش و خروش سے دوڑتے (کپتان نے بہتیرا اشاروں سے منع کیا مگر وہ دو دفعہ گیند کو باؤنڈری لائن تک چھوڑنے گئے) البتہ ایک دفعہ جب وہ اپنے بلے پر لپ اسٹک سے بنے ہوئے ہونٹوں کو محویت سے دیکھ رہے تھے تو گیند اچانک بلے سے آ لگی اور وہ چمک کر ہوا میں گیند سے زیادہ اچھلے ۔ وکٹ کیپر اگر بڑھ کر بیچ میں نہ پکڑ لیتا تو ایسے اوندھے منہ گرتے کہ ہفتوں اپنی شکل آپ نہ پہچان پاتے۔ ۔۔ ۔ ۔ یوں بھی بعض کھلاڑی گیند کو دیکھتے نہیں، سنتے ہیں۔ یعنی ان کو اپنے قرب و جوار میں گیند کی موجودگی کا احساس پہلے پہل اس آواز سے ہوتا ہے جو گیند اور وکٹ کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔
چند اوور کے بعد کھیل کا رنگ بدلتا نظر آیا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا وکٹ گیند کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو۔ ہم نے دیکھا کہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر مرزا نے اپنی مسلح و مسلم ران درمیان میں حائل کر دی۔ سب یک زبان ہو کر چیخ اٹھے۔
"مرزا انے دانستہ اپنی ٹانگ اس جگہ رکھی جہاں میں ہمیشہ گیند پھینکتا ہوں۔ " بولر نے الزام لگایا۔
"بکواس ہے۔ ۔۔۔۔ بات یوں ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس جگہ گیند پھینکی جہاں میں ہمیشہ اپنی ٹانگ رکھتا ہوں۔" مرزا نے جواب دیا۔
"اگر میرا نشانہ ایسا ہی ہوتا تو مرزا کبھی کے پویلین میں براجمان ہوتے۔" بولر بولا۔
"تو یوں کہو کہ تہماری گیند وکٹ سے الرجک ہے۔ " مرزا نے کہا۔
"میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مرزا نے عمداً ٹانگ آگے کی۔" یک چشم بولر نے خلیفہ سے کہا۔
ایمپائر نے دونوں کو سمجھایا کہ بحثابحثی کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پھر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بیٹس مین کے کھیل کے محتاط اسٹائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسے ذرا بھی احتمال ہوتا کہ گیند اس طرف آ رہی ہے تو وہ کھٹاک سے وکٹ کو اپنی ٹانگ کے آگے کر دیتا۔ اس فیصلہ پر مرزا نے اپنی ٹوپی اچھالی اور جب وہ اپنی مرکز کی طرف واپس آ گئی تو پھر کھیل شروع ہوا لیکن دوسرے ہی اوور میں بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کے مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی۔ پھر جب ایمپائر نے دوبارہ مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کے کھیلے کہ ان کی اپنی ٹیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس اجمال پر ملال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اسے رن بنانے کی پر زور دعوت دیتے اور جب وہ کشاں کشاں تین چوتھائی پچ طے کر لیتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر ، بلکہ دھکیل کر اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہو گیا۔ جب مرزا نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کا بشمول کپتان ذی شان ، اس طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے پس ماندگان کو سختی سے تنبیہہ کر دی کہ خبردار ! اب مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے ۔ لیکن مرزا آخری وکٹ تک اپنی وضع احتیاط پر ثابت قدمی سے قائم رہے اور ایک رن بنا کے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا۔ اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے مگر وہ سب آؤٹ ہو گئے ، اس کے برعکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ "زیرو ناٹ آؤٹ" بتاتے تھے۔ ناٹ آؤٹ ، اور یہ بڑی بات ہے۔
کھیل کے مختصر وقفے کے ساتھ طویل لنچ شروع ہوا جس میں بعض شادی شدہ افسروں نے چھپ کر بئیر پی اور اونگھنے لگے۔ جنہوں نے نہیں پی وہ ان کی بیویوں سے بدتمیزیاں کرنے لگے۔ جب چائے کے وقت میں کل دس منٹ باقی رہ گئے اور بیرےچھپ چھپ کر پیالیاں لگانے لگے تو مجبوراً کھیل شروع کرنا پڑا۔ دو کھلاڑی ایمپائر کو سہارا دے کر پچ تک لے گئے اور مرزا نے بولنگ سنبھالی۔ پتہ چلا کہ وہ بولنگ کی اس نایاب صنف میں ید طولٰی رکھتے ہیں جسے ان کے بدخواہ "وائڈ بال" کہنے پر مصر تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹ لگے بغیر بھی دھڑا دھڑ رن بننے لگے۔ تین اوور کے بعد یہ حال ہو گیا کہ مرزا ہر گیند پر گالی دینے لگے۔ (شکار میں بھی ان کا سدا سے یہی دستور رہا کہ فائر کرنے سے پہلے دانت پیس کر تیتر کو کوستے ہیں اور فائر کرنے کے بعد بندوق بنانے والے کارخانے کو گالیاں دیتے ہیں) ہم بولنگ کی مختلف قسموں اور باریکیوں سے واقف نہیں، تاہم اتنا ضرور دیکھا کہ جس رفتار سے مرزا وکٹ کی طرف گیند پھینکتے ، اس سے چوگنی رفتار سے واپس کر دی جاتی۔ وہ تھوڑی دیر کج رفتار گیند کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے۔ بار بار اس پر اپنا دایاں کف افسوس ملتے ، پھر بھدر بھدر دوڑتے اور جب اور جہاں سانس بھر جاتی، وہیں اور اسی لمحے ہاتھ سے گیند پھینک دیتے۔
"منہ پھیر کر ادھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ"
ابتدا میں تو مخالف ٹیم ان کی بولنگ کے معیار سے نہایت مطمئن و محظوظ ہوئی لیکن جب اس کے پہلے ہی کھلاڑی نے پندرہ منٹ میں تیس رن بنا ڈالے تو کپتان نے اصرار کیا کہ ہمارے دوسرے بیٹس مین رہے جاتے ہیں۔ ان کو بھی موقع ملنا چاہیے اس لئے آپ اپنا بولر بدلئے۔
مرزا بولنگ چھوڑ کر پویلین میں آ گئے۔ مارے خوشی کے کانوں تک باچھیں کھلی پڑ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ پر واپس آگئیں تو منہ ہمارے کان سے بھڑا کر بولے۔
"کہو ، پسند آئی؟"
"کون۔۔۔۔۔ کدھر ؟ " ہم نے پوچھا۔
ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے۔ " نرے گاؤدی ہو تم بھی۔۔۔۔۔۔ میں کرکٹ کی اسپرٹ کی بات کر رہا ہوں۔"
(مشتاق احمد یوسفی)

Wednesday, November 11, 2009

بارے کچھ جامعہ کے

شروع کے دنوں میں ہی ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جامعہ میں داخلہ لینا اتنا مشکل نہیں جتنا اس میں خیرو عافیت کے ساتھ داخل ہونا۔ ۔ ۔ علم کے نئے نویلے پرستاروں کے ساتھ یہاں وہی سلوک کیا جاتا ہے جس کا سامنا عموماً نوآموز سخن وروں کو مشاعروں میں ہوتا ہے۔ یوں تو ہم نے شاعرانہ مبالغے کی رعایت سے ہمیشہ ہی اپنے آپ کو شیر جانا ہے لیکن جامعہ میں آ کر پہلی بار ادراک ہوا کہ جنگل کا بادشاہ شیر جب شہر آتا ہے تو کیونکر معصوم شوہر کی طرح بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ یہ عقدہ بھی ہم پر یہیں کھلا کہ جامعہ میں داخلہ لینے اور داخل ہونے کے لئے آپ کو بی اے کا ڈگری ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ماہر استاد موسیقی سے ریاض لینا بھی اشد ضروری ہے ۔ اگر آپ کو شعرو شاعری سے نیاز ہے تو ٹھیک ، ورنہ کسی قادر الکلام شاعر کا تلمذ بھی شرط ٹھہری۔ ہماری بدقسمتی کہ اپنی نفاست طبع کے باعث (جسے باذوق حضرات نے ہماری کور علمی جانا) ہم مندرجہ بالا فنون کے اظہار میں اپنے میزبانوں کی توقعات کے برعکس نکلے۔ گلا ہم نے دست قدرت سے ایسا پایا ہے کہ اگر کسی تقریب میں بہ امر مجبوری گانا ہی پڑا تو سننے والوں کو دیر انتظامیہ سے "گلہ" رہا۔ بارہا تماشا بھی دیکھا کہ سامعین اس گانے کے ماخذ کو گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، کچھ عناد پرست تو ہاتھوں کے گستاخ اشاروں سے اسے دبانے کا عملی مظاہرہ بھی کر ڈالتے ہیں۔ ایک دفعہ تو احباب ہمیں یہ کہہ کر "ماہر ناک، کان اور گلا" کے پاس لے گئے کہ چائینز کھانوں کی چاہ میں کوئی بے سرا مینڈک کھا بیٹھے ہیں جو وقت بے وقت ٹراتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ اب ذرا شاعری کی سنئیے ۔ شعر یاد کرنے کے لئے جس غیر معمولی حافظہ کی ضرورت ہے، اس کا ہمارے ہاں ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ پھر شاعر نظر آنے کے لئے جن جملہ لوازمات کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے، وہ ہم میں سرے سے ناپید ہیں کہ نہ تو ہمارے بال ہی غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر وطن عزیز میں موتراشوں کی کم یابی پر تشویش ہو، نہ کہیں سے کوئی ایسا ثبوت ملتا ہے کہ ہم اپنے سکے چھپانے کے لئے مٹی کے گولگ کی بجائے اپنے سر کی درمیانی "پناہ گاہ" سے استفادہ کرتے ہیں۔ صابن کے خرچ میں بھی ہمیں کبھی اسراف جیسے گناہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ہمارے منہ اور بالوں کی سرحدوں میں گہرے مراسم ہیں اور ہمیں شاعروں کی طرح فاضل رقبہ سیراب نہیں کرنا پڑتا۔ لباس کے معاملے میں اگرچہ ہم خاص اہتمام کے عادی نہیں پھر بھی کوشش کے باوجود بے ڈھنگے معلوم نہیں ہوتے اور یہ شاعرانہ حلیہ سے اختلاف کی صورت ہے ۔ شاعر رکھنے کے لئے جس مخصوص ڈیل ڈول کی ضرورت ہوتی ہے ، بد قسمتی سے ہم اس سے بھی محروم ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محض شاعروں کی وجہ سے ہمیں شاعری سے کبھی بھی رغبت نہیں رہی۔ فنون لطیفہ کی اس "بے قدری" کی بنا پر جو سانحات ہم پر گزرے، وہ تو ایک الگ داستان ہے البتہ یہ جان کر خون سیروں بڑھ گیا کہ ابھی کچھ پرستاران ادب جہاں میں باقی ہیں جو فنون لطیفہ کے سچے اور کھرے قدردان ہیں۔
ادب لطیفہ کی صحیح‌قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو جامعہ سے بہتر وسائل کہیں‌نہ پائیں‌گے۔ وہ حضرات جنہیں فن موسیقی اور شعرو ادب کا ذوق نہیں، ان کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ کسی “اکھاڑے“ سے استفادہ کریں‌کیونکہ جامعہ کے سینئر طالب علم نئے آنے والوں‌کی صحت کا خیال رکھنا اپنا فرض‌منصبی سمجھتے ہیں۔ ہمیں‌ادھر آکر ہی معلوم ہوا کہ ڈنٹر پیلنے اور ڈنڈ لگانے میں‌کیافرق ہے۔ مگدر گھمانا تو ہمارے “دائیں“‌ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ مسلسل دوڑنے سے ہمیں‌ان طالب علموں‌کی اعلی فہمی کا احساس ہوا جو اچھا خاصا پرسکون انداز میں‌پڑھنے کی بجائے کلاس روم سے دوڑنے کو ترجیح‌دیتے ہیں۔ وہ طالب علم جو اسمبلی کے دوران پیٹ درد کا بہانہ بنا کر یا بستوں‌میں‌دفن لنچ بکسوں کی “حفاظت“‌کے خیال سے کلاس روم میں‌بیٹھے رہتے ہیں، انہیں‌شدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ نو آموز طالبان جامعہ کو پی ٹی کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنا از حد ضروری ہے ۔ یہاں‌بھی ہماری ان مشقوں‌نے ساتھ دیا جو ہم وقت پر سکول پہنچنے کی بنا پر کیا کرتے تھے۔ قومی ترانہ اور “دعا“‌اگرچہ ہمیں فر فر یاد تھے لیکن گلے کے دائمی زکام میں وہ کسی اور ہی زبان کی تخلیق معلوم ہوتے تھے۔ ۔ ۔۔ پینٹ کے نیچے چڈی پہننی ہمیں‌کبھی بھی پسند نہیں‌رہی لیکن جامعہ میں‌ آ کر احساس ہوا کہ چڈی کے اوپر نیکر بھی پہننی چاہیے۔ ایک اضافی صفت جو نئے آنے والوں میں‌کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہیے، وہ فن نقالی ہے۔ آپ کم از کم ایسی آواز ضرور نکال سکتے ہیں کہ متعلقہ جانور اسے سن کر ایک دفعہ ضرور متوجہ ہو یا کم از کم آپ کو اس کے سامنے شرمندگی کا احساس نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں‌بھی اس کی افادیت کا اس وقت قائل ہونا پڑا جب پہلی بار ہمیں‌معلوم ہوا کہ طوطا “میاں‌مٹھو“‌کے ساتھ ساتھ “ٹیں‌ٹیں“‌بھی کرتا ہے، اس سے پہلے ہم یہ بھی نہیں‌جانتے تھے کہ مرغا تو “ککڑوں‌کڑوں“‌کرتا ہے تو پھر مرغی کیا کرتی ہے؟۔۔۔۔ اس وقت تو ہمیں‌سخت حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی جب بکرے کی آواز نکالنے پر کتے کے فراق میں‌مبتلا ایک کتیا دوڑی چلی آئی، ایسے میں‌ ہمیں‌کتیا سے زیادہ اپنے گلے پر غصہ آیا۔
(ذیشان تبسم)

Thursday, November 5, 2009

مزاحیہ کلام

رات اک لخت ِ جگر ٹیچر کے گھر پیدا ہوا
واں بجائے شادمانی، شور و شر پیدا ہوا

ساتھ برخوردار کے روتا تھا اس کا باپ بھی
اور کہتا تھا کہ کیوں اے بے خبر پیدا ہوا

پیدا ہونا ہے بجائے خود حماقت کی دلیل
اور اس پہ طرہ یہ کہ تُو ٹیچر کے گھر پیدا ہوا

میں مخالف، ماں اور حکومت بھی خلاف
دشمن ِ منصوبہ بندی کیوں مگر پیدا ہوا

میں تو پیدا وار ہوں سستے زمانے کی مگر
تو بتا اس دور میں کیا سوچ کر پیدا ہوا

اس دفعہ بچہ سمجھ کے چھوڑ دیتے ہیں تمھیں
مار ڈالوں گا اگر بار ِ دگر پیدا ہوا

Tuesday, November 3, 2009

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔"

وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔

اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟"
جواب آیا۔ "ہوں۔"
میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟"
کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟"
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔"
کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔"
میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة"۔

دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔

اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)
میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ "اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔"

آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔

بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!"
انہوں پتھر کھینچ مارا "یس!"
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔"
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟"
چپ۔
"لالہ جی!"
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔"
"ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔"
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔

اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔"
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟"
میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔"
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈمارننگ" کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔

یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟"
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔
بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔"
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔"
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔

نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں
(پطرس بخاری)

Sunday, November 1, 2009

ایف سولہ میں‌سرمے کی سیل

ایف سولہ کے ہنگامے اپنے عروج پر تھے کہ اتنے میں ایک پتلا پتنگ، طویل القامت ، کالا سیاہ بندہ ہاتھوں میں کپڑے کی بنی ہوئی ایک بوسیدہ اور میلی کچیلی سی پوٹلی اٹھائے وارد ہوا۔ اس نے پوٹلی دونوں ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ وہ یوں ہراساں اور حواس باختہ دکھائی دے رہا تھا جسیے ابھی ابھی کوئی بنک لوٹ کر بھاگا ہو۔ اس نے آتے ہی ایک زوردار سلام کیا۔
"ماؤں ، بہنو، بھائیو اور بزرگو ! السلام علیکم۔" آواز بہت کراری تھی۔ "سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ اس بندہ ناچیز کا نام جمعہ خان لہولہان ہے۔ میرا غریب خانہ موضع بکھرانی میں ہے۔ میں تقریباً بیس سالوں سے بسوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہوں۔ مجھے ایسا ویسا مت سمجھنا، بہت نامی گرامی ہوں۔ پاکستان کا بچہ بچہ میرے کرتوت (کارنامے) جانتا ہے۔" پھر اس نے اپنی پوٹلی کا ازار بند ڈھیلا کیا، اس میں سے چند چھوٹی چھوٹی بوتلیں نکالیں اور پھر گویا ہوا۔ "عزیزان من ! آنکھ اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اکھ (آنکھ) ہے، تو لکھ (لاکھ) ہے، اکھ نہیں تو ککھ نہیں۔ جناب ! میں نے آپ کی پیاری پیاری آنکھوں کے لئے ایک نایاب سرمہ تیار کیا ہے۔ میں اس کا نسخہ عرض کئے دیتا ہوں، پڑھے لکھے لوگ اسے نوٹ کر سکتے ہیں۔ نسخہ یوں ہے کہ سمندری جھاگ ، گندھک، پھٹکڑی، نمک، کالی مرچ، سرخ مرچ، نیلا تھوتھا، گوند گتیرا، نیم کے پتے، کوئلہ اور کالے بکرے کی مینگنیاں۔ ان تمام اشیاء کو ہم وزن ملا کر ہاون دستے میں کوٹ کر ململ کے کپڑے سے چھان لیں۔ اس طرح سے تیار ہونے والے سفوف کو آک کے دودھ میں گوندھ لیں۔ پھر اس کا پیڑا بنا کر ایک کوزے میں ڈال کر ، ہوا بند کرکے کسی کوڑے کے ڈھیر میں دبا دیں۔ چالیس دنوں کے بعد نکالیں، سرمہ تیار ہو گا۔ آپ نسخہ کے مطابق سرمہ بنا سکیں تو بے شک بنائیں اور اگر کاہل اور کام چور ہیں تو ریڈی میڈ سرمہ مجھ سے لے سکتے ہیں۔ آنکھ سوجی ہوئی ہو، آئی ہوئی ہو، بہتی ہو۔ آنکھ میں کھرک ، دھند، جالا، پڑوال، ککرے، کالا موتیا یا سفید موتیا ہو۔ آپ مطالعہ کرتے وقت انتہائی قریب یا دور کرکے پڑھتے ہوں، سوئی کے ناکے میں دھاگہ ڈالنے میں دقت محسوس کرتےہوں تو ایک بار میرا تیار کردہ سرمہ ضرور آزمائیں۔ یہ سرمہ آنکھوں کے جملہ امراض کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عینک سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی، آپریشن سے بچ جائیں گے۔ آپ نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہوں گے ، افاقہ نہیں ہوا ہو گا۔ یہ سرمہ آزمایا ہوا ہے اور لوگ اسے دور دور سے منگواتے ہیں۔ آپ اس سرمے کی صرف ایک ایک سلائی اپنی آنکھوں میں پھیریں، پھر دیکھیں قدرت کے نظارے، چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں۔ ایک ایک کے چار چار دکھائی نہ دیں تو مجھے جمعہ خان نہ کہنا، ہفتہ اتوار خان کہہ لینا۔ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں ۔ بعد میں ڈاک سے منگوائیں گے توا یک شیشی کا مول دس روپے ہو گا اور ڈاک خرچ اس کے علاوہ ہو گا مگر اس وقت صرف پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ نیم کی لکڑی سے بنی ہوئی سلائی مفت ۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔" وہ شیشیاں اور سلائیاں ہاتھوں میں پکڑ کے بندے تاڑنے لگا۔ "اگر فائدہ نہ ہو تو یہی سمجھنا کہ پانچ روپے کہیں گر گئے تھے۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔"


(ناصر الرحمن ناصر)

Friday, October 30, 2009

کیٹ اور کیٹ واک

چار ٹانگوں والی بلی کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ جب ہابیل قابیل کا حادثہ رونما ہو رہا تھا ، اس وقت وہاں دو جانور موجود تھے ایک کوا، دوسری بلی۔ قاتل نے مقتول کو دفنانے کا فن کوے سے نہیں بلکہ بلی سے سیکھا تھا اور اسی دن سے یہ دہشت گردوں کا امتیازی نشان بنی ہوئی ہے۔ فرعون اپنے لکڑی کے تخت پر جب بھی بیٹھتا ، اس کی گود میں یہی "دہشت گردی" ہوتی۔ ایک مرتبہ فرعون کو کسی بات پر سخت غصہ آ گیا ، اس نے بے چاری بلی کو اتنی زور سے بھینچ ڈالا کہ وہ پورا "میاؤں" بھی نہ بول سکی۔ اس کے بعد چالاک وزیراعظم نے اس کا تخت لوہے کا بنوا دیا جس کی شکل بلی کی سی تھی، فرعون اس پر غصہ میں مچلتا رہتا۔ اس چکر میں کئی مرتبہ اس کی پتلون بھی پھٹ گئی لیکن ظالم نے غصہ چھوڑا، نہ بلی چھوڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔قلوپطرہ کا بھی بلی سے لگاؤ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے جرنیل خواہش کرتے کہ کاش! وہ بلی ہوتے لیکن جیسے ہی قلوپطرہ کے سامنے آتے ، بھیگی بلی بن جاتے۔ قلوپطرہ سے شادی کا شاہی امیدوار اس کا سگا بھائی تھا، مصر کے اس وقت کے رسم و رواج میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ دوسری جانب جب جولیس سیزر اس سے شادی کا خواہش مند ہوا تو فیصلہ بلی پر چھوڑ دیا گیا کہ بلی جس کی گود میں جا بیٹھے گی، قلوپطرہ اسی سے شادی رچالے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلی جولیس سیزر کی گود میں جا بیٹھی لیکن مورخ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ اس کی گود میں چھیچھڑے کس نے رکھے تھے؟۔۔۔۔۔ قلوپطرہ کی بلی کالے رنگ کی تھی اور اس کی آنکھیں نیلے رنگ کی تھیں جبکہ قلوپطرہ بھی کالے رنگ کی تھی اور اس کی رگیں نیلے رنگ کی تھیں جو پورے بدن پر ابھری ہوئی تھیں اور یہی اس کے لازوال حسن کی دلیل سمجھی جاتی تھیں، اس وقت "آئی وی" یعنی نس میں ٹیکہ لگنے کا رواج نہیں تھا ورنہ قلوپطرہ کو تو اندھا بھی نس کا ٹیکہ لگا سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایران کے شاہ نے جب فرح دیبا کو دیکھا تو اس پر مر مٹے۔ تحفہ کے طور پر اپنی سب سے پیاری بلی کے دو بچے اس کی نذر کئے اور جواب میں ملکہ فرح دیبا نے شاہ کو دو انسان کے بچے تحفہ میں دے دئیے جو خمینی کی وجہ سے ایران کے تخت پر نہ بیٹھ سکے۔ اس میں بے چاری بلی کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہٹلر کی گرل فرینڈ کو بلی سے بہت پیار تھا۔ جب یہودیوں کی غداری کی وجہ سے ہٹلر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اجتماعی خود کشی کا پروگرام بنایا۔ ہٹلر نے پہلے گرل فرینڈ کو گولی ماری اور پھر بلی کو کیونکہ گرل فرینڈ بلی کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی، آخر میں ہٹلر نے خود کو گولی ماری کیونکہ وہ ان دونوں کو مرا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔



یار لوگوں کو تادم تحریر معلوم نہیں کہ ماڈلنگ کس نے شروع کی تھی؟ اسٹیج پر آ کر لوگوں کے سامنے ماڈل کی پیمائش کروا کر کپڑوں کی نمائش کا طریقہ ویسے تو اسی وقت ایجاد ہو گیا تھا جب یورپی لڑکیوں نے کپڑوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، مجبوراً ماڈلنگ کے ذریعے انہیں کپڑے پہننے کی ترغیب دی جانے لگی لیکن پھر بھی اسٹوری میں کہانی نہ آئی۔ یہاں بھی بلی ہی کام آئی جس کی چال تمام جانداروں میں سب سے زیادہ دلکش ہے ۔ کبھی اس کی مستانی چال پر غور کریں کہ سامنے کے دو پیر ایک دوسرے کے سامنے پڑتے ہیں۔ جس وہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ سائڈوں پر بھی ڈولتی ہے۔ بلی کی اس چال کو "کیٹ واک" کہتے ہیں۔ اس چال کو اپناتے ہی ماڈلنگ کی دنیا میں بھونچال آ گیا۔ اب لوگ کپڑوں سے زیادہ کیٹ واک دیکھنے جاتے ہیں کیونکہ کیٹ واک کرتے ہوئے ماڈل کا بدن پنڈولم کی طرح ہلتا ہے جس سے کپڑوں کی پرفیکٹ فٹنگ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کمپنی کی مشہوری کے لئ ہم کیٹ واک سیکھن کا طریقہ بھی بتا دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی اس سے استفادہ کرنا چاہے تو شوق سے کر لے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر پر ایک عدد بڑی پلیٹ (چاول کھانے والی) رکھیں، دایاں پاؤں بائیں پاؤں کے عین سامنے چار انچ کے فاصلے پر رکھیں اور پھر بائیں پاؤں کے سامنے اسی انداز میں رکھیں، دس گز دور جا کر بائیں پاؤں پر وزن ڈال کر گھو م جائیں اور اسی طرح واپس اسٹارٹنگ پوائنٹ پر آ جائیں۔ پنجابی میں اس کو کہتے ہیں "جتھے دی کھوتی، اوتھے ہی آن کھلوتی"۔۔ ۔ ۔ ۔
(شاہد اطہر)

Monday, October 26, 2009

دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے

بڑی محنت کرتا ہے۔ شام کو بھٹی چڑھاتا ہے، دن بھر بیکار بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا رستہ لیتا ہے۔ کبھی نالے پر دھوتا ہے، کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے، گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے۔ صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے۔ دوپہر ہونے آئی، اب تک پانی میں کھڑا ہے اس کو ضرور سرسام ہوجائے گا۔ درخت کے نیچے بیل بندھا ہے۔ جھاڑی کے پاس کتا بیٹھا ہے۔ دریا کے اس پار ایک گلہری دوڑ رہی ہے۔ دھوبی انہیں سے اپنا جی بہلاتا ہے۔
دیکھنا دھوبن روٹی لائی ہے۔ دھوبی کو بہانہ ہاتھ آیا ہے۔ کپڑے پڑے پر رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ کتے نے بھی دیکھ کر کان کھڑے کئے۔ اب دھوبن گانا گائے گی۔ دھوبی دریا سے نکلے گا۔ دریا کا پانی پھر نیچا ہوجائے گا۔
میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے دیکھئے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں، کیا مجال کوئی پاس تو آجائے، جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیں لےجاسکتے۔ میاں دھوبی! تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو، ننگا پھراتے ہو۔
(ابن انشاء)

Saturday, October 24, 2009

کون کیا ہے

کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالات زندگی ، کون کیا ہے؟ اکثر چھپتے رہتے ہیں جنہیں بیشتر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشن11;ی سی رہ ج575;تی ہے، شاید اس لئے فقط ان ہستیوں کا ذکر کیا 580;اتا ہے ، جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے ، یا اس لئے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے قدریں بھی بدل چکی ہیں ، غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے، وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔ چنانچہ نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ، کون کیا ہے کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے۔
ازبر رو مانی
1960 میں جوان ہوئے۔ آپ کے شاعر بننے کے متعلق طرح طرح کی افواہیں مشہور ہیں جن میں سے کچھ تو بالکل غلط ہیں۔ سنا ہے کہ آپ 63 میں کسی لڑکی پر خواہ مخواہ عاشق ہو گئے تھے، محبوبہ نے عاشقی کی قدیم روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں خوب ستایا، پھر 65 میں کہیں غائب ہو گئی۔ محبوبہ کے چلے جانے کے بعد ان کی زندگی بالکل سنسان ہو گئی اور کچھ بھی نہ رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کی بیوی اور پانچ بچوں کے۔
66 میں محبت سے بیزار ہو کر لڑکیوں کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا اور عورتوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ ۔ ۔ ۔۔ بڑے نازک مزاج ہیں ، ایک دعوت میں سری پائے نوش کئے تو ذرا دیر بعد سر میں درد ہو گیا اور پاؤں میں موچ آ گئی۔ فقط رومانی چیزیں چکھتے ہیں جو فلمی پرچون کی زینت بنتی ہیں۔
آپ بہت ہر دل عزیز ہیں، بڑی بڑی محفلوں میں جا چکے ہیں ، فقط ایک مرتبہ۔ جدید شاعری سے دور رہے ہیں، چنانچہ زندان ، خرابے ، خوناب، سامراج، طبقاتی شعور، سرخ سویرا، سبز دوپہر، عزت آدم، ذلت مردم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قسم کی چیزوں کے پاس نہیں بھٹکتے۔
اظہر سماجی
آپ بھی شاعر ہیں اور زندان ، خرابے، خوناب، سامراج، طبقاتی شعور وغیرہ پر جان چھڑکتے ہیں۔ دراصل آپ شاعری اس لئے کرتے ہیں کہ ازبر رومانی کی خبر لے سکیں۔ جس دن ازبر صاحب نے شاعری چھوڑ دی آپ بھی ترک کر دیں گے اور اپنا وقت کسی بہتر مشغلے میں صرف کیا کریں گے۔

(شوکت تھانوی)

Thursday, October 22, 2009

کھانا خودبخود پک رہا ہے

دیکھنا۔ بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے۔ ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے۔ ہر چیز کیا قرینے سے رکھی ہے۔ دھوئے دھائے برتن صندوق پر چُنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے، ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دھرے ہیں۔ کسی میں دال ہے اور کسی میں آٹا، کسی میں چولہے، پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلائے، جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے، چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے۔ غرض یہ کہ سب کام ہوچکا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔ میاں جب آتا ہے تو کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے۔ پیچھے کبھی نہیں رکھتی، کھا چکتا ہے۔ تو کھانا اُٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تو میاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے۔ کھانے پکانے سے فارغ ہوتی ہے تو کبھی سینا لے بیٹھی ہے۔ کبھی چرخہ کاتنے لگتی ہے، کیوں نہ ہو، مہاتماگاندھی کی بدولت یہ ساری باتیں سیکھی ہیں۔ آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو ڈاکٹر سے علاج کروانا پڑے۔
(ابن انشاء کی "اردو کی آخری کتاب" سے )

Friday, October 16, 2009

اصلاح مطلوب ہے

ہر آدمی کا بچہ بڑا ہو کر ایک آدمی بنتا ہے اور پھر فارغ بھی ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور سوچتا ہے۔ یوں تو مجھے بھی بہت کام کرنے ہوتے ہیں مگر زیادہ کام دیکھ کر کچھ کرنے کو جی نہیں کرتا اور صرف کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں لیکن آج تو کمال ہو گیا کہ جب سوچتے سوچتے اکتا گیا اور قریب تھا کہ سوچنا چھوڑ دوں تو اچانک ایک بالکل نئی انقلابی سوچ دماغ میں پیدا ہوئی کہ کوئی بڑا کام کیا جائے۔ یہ انقلابی سوچیں بھی بیٹھے بٹھائے ہی پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ نظر دوڑائی تو نظر دوڑی مگر پیچھا کرنے کی اتنی کوشش نہ کی۔ اندازہ ہوا کہ کہ سب بڑے کام بڑے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ایک نظر ان ڈگریوں پر ڈالی جو نالائقی کے باعث حاصل نہ کر سکا۔ دماغ پر زور ڈالا، وہ بھی اثر انداز نہ ہو سکا۔ آخر سوچ اس نتیجہ پر پہنچی کہ کچھ علمی و اصلاحی کام کیا جائے اور محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا گیس پیپر تیار کیاجائے جس سے وہ طالب علم مستفید ہو سکیں جو میری طرح اکثر و بیشتر امتحانات میں بری طرح فیل ہو جاتے ہیں اور اسی باعث ان کی شادی ہونے میں کئی کئی سال کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہ ہمارا گیس پیپر پڑھ کر پرچے میں کم از کم پہلا صفحہ ہی کالا کر دیں، پہلا صفحہ کالا کرنے کے بھی نمبر ملتے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک پرچہ کا منہ کالا کرنے پر سو میں سے سات نمبر ملے تھے
خیر یونہی نمبر یاد آ گئے حالانکہ ماضی کا کیا رونا، حال کون سا تابناک ہے کہ مستقبل کی فکر کی جائے؟ ۔ ۔ ۔ علم کا دریا ہے کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سر کے اوپر سے گزر رہا ہے مگر عقل ہے کہ کام ہی نہیں کر رہی۔ کبھی سوچتا ہوں کہ دو اینٹیں کھڑی رکھ کر ان پر کھڑا ہو جاؤں مگر ڈرتا ہوں کہ پاؤں پھسل گیا تو الٹا خود ہی ڈوب جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ بنانے کا طریقہ و ترکیب سے آپ بخوبی واقف ہونگے ، اس لئے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ واقفیت نہیں رکھتے تو کسی سے پوچھ لیجئے گا اور پتہ نہ چلنے پر بجائے پریشان ہونے کے میری طرح صبر کر لیجئے گا۔ مجھے بھی محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا شوق نہیں ہے۔
(علی راز)

Thursday, October 15, 2009

کراچی کا قبرستان

اے کراچی ملکِ پاکستان کے شہرِ حسیں
مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں

قبر کا ملنا ہی ہے اول تو اک ٹیڑھا سوال
اور اگر مل جائے اس پر دخل ملنا ہے محال

ہے یہی صورت تو اک ایسا بھی دن آ جائے گا
آنے والا دور مُردوں پر مصیبت لائے گا

مردماں بیسار ہونگے اور جائے قبر تنگ
قبر کی تقسیم پر مُردوں میں چھِڑ جائے گی جنگ

سیٹ قبرستان میں پہلے وہ مُردے پائیں گے
جو کسی مردہ منسٹر کی سفارش لائیں گے

کارپوریشن کرے گا اک روز ریزولوشن یہ پاس
کے ڈی اے اب مرنے والوں سے کرے یہ التماس

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجئے
یعنی جرمِ انتقالِ ناگہاں مت کیجئے

کچھ مہینے کے لئے ہوجائے گی تربت الاٹ
اس کے بعد آئے گا نوٹس چھوڑ دیجئے یہ پلاٹ

تربت شوہر میں اس کی اہلیہ سو جائے گی
"محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی"

ایک ہی تابوت ہو گا اور مردے آٹھ دس
آپ اسے تابوت کہیے یا پرائیوٹ بس

ایک ہی تربت میں سو جائیں گے محمود و ایاز
دور ہو جائے گا فرقِ بندہ و بندہ نواز

شاعر مرحوم جب زیر مزار آ جائے گا
دوسرے مردوں کو ہیبت سے بخار آ جائے گا

اس سے یہ کہہ کر کریں گے اور مردے احتجاج
ہم کو ہوتا ہے تمہاری شاعری سے اختلاج

خامشی شہرِ خاموشاں میں ہے دستورِ ازل
تم یہاں بھی چھیڑ دو گے غیر مطبوعہ غزل

ہم کہیں گے سو رہو، آرام کرنا فرض ہے
تم کہو گے ہو چکا آرام، مطلع عرض ہے

سرخیاں یہ ہونگیں جنگ و حرمت میں ڈان میں
ڈال لی ہیں جھگیاں ُمردوں نے قبرستان میں

رات وہ مُردوں نے ہنگامہ کیا زیرِ مزار
ایک مردہ جیل میں ہے ، دوسرا مردہ فرار

ایک مردہ بھاگ اٹھا چھوڑ کر گور و کفن
قبر پر مرحوم کی ہے قبضہء کسٹوڈین

برتری جاتی رہی ، حفظ مراتب مٹ گیا
ایک مردہ ایک پولیس والے کے ہاتھوں پِٹ گیا

رات اک تربت پہ دو مردوں میں سودا پٹ گیا
ایک مردہ پانچ سو پگڑی لے کر ہٹ گیا

ہم تو سمجھے تھے ہمی ہیں اس جہاں میں بیقرار
اُس جہاں والوں کو بھی ملتی نہیں راہِ فرار

صرف زندوں کو ہی فکرِ عیش و آسائش نہیں
اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں

(دلاور فگار)

Monday, October 12, 2009

بے ادب رکشے

کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ نام ہی کافی ہے ۔ ۔ ۔ قلم اٹھانے کی جسارت صرف اس لئے کی کہ جو باتیں رکشہ کے اندر اور باہر رقم ہوتی ہیں، وہ مسافروں پر کسی نہ کسی انداز سے اثر انداز اور منطبق ہوتی ہیں۔
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ôôôôô
تو انٹرنیٹ کھولے اور چیٹنگ روم جا پہنچے
کسی رومانی چینل میں ہوں میں منتظر تیرا
بڑے ہی مان سے میں تجھ سے پوچھوں تیرا اے ایس ایل
تو لکھے سترہ برس کی، وطن انگلینڈ ہے میرا
ôôôôô
میں لکھوں ، بیس کا سن ہے، میں ٹورانٹو میں بیٹھا ہوں
یہیں اک اشتہاری کمپنی میں جاب ہے میری
تو لکھے ، میں نمانی ہوں، ادب سے شغل رکھتی ہوں
میں لکھوں ، ہائے، اف اللہ ! تہی تو خواب ہے میری
ôôôôô
تو لکھے کیٹس اور ٹیگور پر میں جان دیتی ہوں
میں لکھوں کون ہیں یہ جو; رقابت پر ہیں آمادہ
تو لکھے ، آنجہانی ہیں ، بڑے معروف شاعر تھے
میں لکھوں، پارڈن می ! کیا سمجھ بیٹھا تھا میں سادہ
ôôôôô
بہت سی ہم میں باتیں ہوں، بہت سی فقرہ سازی ہو
بہت سے جھوٹے افسانے کہیں اک دوسرے سے ہم
یوں اک دوجے میں کھو جائیں ، بھلا دیں ساری دنیا کو
بھلا دیں وقت کی ظالم حقیقت کو سرے سے ہم
ôôôôô
بھلا دیں وقت کو ایسے، خبر نہ ہو سکے یکسر
یونیورسٹی سے بیٹا اور بیٹی لوٹ آئے ہیں
تو ان کی کھلکھلاہٹ سن کر سی پی یو کو شٹ کر دے
انہیں معلوم ہے ، ماں باپ نے جو گل کھلائے ہیں
ôôôôô
ہمیں وہ لیلٰی مجنوں کہہ کر چھیڑیں ، اور ہم بوڑھے
بہت جھینپیں جوانوں سے ، بہت شرمائیں ہم دونوں
مگر جب اگلا دن آئے ، یہی تجھ سے ہو فرمائش
چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ôôôôô


نوید ظفر کیانی

Tuesday, July 7, 2009

(پان بلائے جان (شاہد اطہر

پان کی اصل قدر وقیمت کا ہمیں اندازہ 1971ء کی جنگ کے دوران ہوا جب جنگ کی وجہ سے پان کی درآمد معطل ہوئی۔ ان گنہگار آنکھوں نے لوگوں کو امرود کے پتوں پر کتھا چونا لگا کر ذوق تسکین کرتے ہوئے دیکھا۔ جتنی گالیاں اردو لغت میں ہوں گی، اتنی بھارت کو دی جاتیں کی کس طرح اس نے امن کو پامال کر دیا، ان لوگوں کی امن سے مراد پان ہی تھی۔ ہمیں تو یہ گمان بھی ہے کہ بکریاں بھی امرود کے پتے کھا کر اپنی زبان میں گالیاں ہی دیتی ہیں۔ ہمارے حصہ کا جوپاکستان بچا ، اس میں تو پان ہوتا نہیں ہے اور ہمارا جو بازو ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے کٹ گیا، وہ پان میں خود کفیل تھا جس کے پان کا نام "بنگلہ"تھا جسے ہم نے خود ہی چبا کر تھوک دیا مگر اب عبث تھوکا ہوا چاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کی مس ورلڈ کی طرح بھارت کاپان "سانچی"بھی نمبر ون ہوتا ہے اور ان ہی کی طرح خوب ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی بھارت کا ہی پان ہے "بنارسی "جو بنارسی ساڑھی ہی کی طرح مہین ہو تا ہے جسے بھارتی ناریاں جسم کی نمائش کے لئے شوق سے پہنتی ہیں (ساڑھی کو ، پان کو نہیں)۔ امپورٹڈ پانوں میں گھٹیا پان سری لنکا کا ہوتا ہے جس کا نام "سیلون"ہے۔ یہی پان پاکستان میں آتا ہے۔ آپ اسے شوق سے کھاتے ہیں اور وہ آپ کو کھاتا ہے۔ ویسے ایک اور پان ہے "پاکستانی" جو 71ء کی جنگ کے بعد "نظریہ اشد ضرورت "کے تحت ملیر کراچی میں کاشت کیا گیا تھا تاکہ ایمرجنسی میں امرود کے پتوں کو پنواڑیوں سے بچایا جا سکے۔ اس پان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے بعد آپ "سیلون"بھی بخوشی کھا لیتے ہیں۔ہماری جاں فشاں تحقیق کے مطابق پان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی ہے۔ دنیا میں قدم رنجا فرماتے ہی باوا آدم ؑ اور اماں جان حواؑ نے اپنے جسموں کو پان کے پتوں سے ہی ڈھانپا ہو گا۔ کیونکہ جنت بدر کرکے انہیں جس مقام پر ڈراپ کیا گیا تھا، وہاں پان ہی پان تھے کیونکہ ان کو یمن کے قریب جس جزیرہ میں دنیا داری کے لئے آزاد چھوڑا گیا وہ سلیون (موجودہ نام سری لنکا ) ہی تھا جو طوفان نوح میں پھسلتا ہوا موجودہ مقام پر اٹک گیا ۔ اسی وجہ سے سری لنکا میں آج بھی بابا آدم کے پاؤں کا نشان محفوظ ہے جسے ہزاروں ٹورسٹ روزانہ دیکھتے ہیں اور ہمارے خیالات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کی تہذیب کا مطالعہ کرنے سے جہاں ان کے بد تہذیب ہونے کے نشانات ملتے ہیں وہاں ان کے پان کھانے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ ان کی دوکانوں کا سائز پان کے کھوکھے کے جتنا ہوتا تھا۔ پھر ان کے ظروف میں پیک دان نمایاں ہے جسے انگریز اپنی کم علمی کی وجہ سے آلات جراحی سمجھتے رہے ہیں۔ ٹیکسلا میں ایک مقام "سری کپ"ہے ، وہاں کا چونچال راجہ شام کو ایک کھیل کھیلا کرتا تھا جو کہ موجودہ "ڈرافٹ"جیسا تھا اور ہارنے والے کا سرکپ (کاٹ) دیاجاتاتھا۔ وہ کم بخت مد مقابل کو مکس تمباکو کا پان کھلا دیا کرتا تھا اور خود سادہ الائچی کا پان کھالیا کرتا تھا، مدمقابل کو چکر آنے شروع ہو جاتے تھے لہٰذا وہ گیم اور گردن دونوں ہی ہار جاتا۔ ایک مرتبہ ایک ہوشیار کھلاڑی نے پان بدل دئیے ، راجہ بوجہ چکر گیم جاری نہ رکھ سکا اور پہاڑی سے اترتے ہوئے ایسا پھسلا کہ پھر نہیں رکا ، دنیا سے ہی کوچ کر گیا۔ مرنے کے بعد ظالم کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور منہ میں پان تھا۔زمانہ قبل از تاریخ میں چونکہ پان کا استعمال کپڑوں کی جگہ ہوتا تھا لہٰذا تول کے مول نہیں ملتا تھا بلکہ طول کے مول ملتا تھا اتنے میٹر پان دے دو، تنوع پسند انسان اس وقت کلر میچنگ کا خیال رکھتا تھا۔ ہلکا زرد کچا پان اوپری حصہ جبکہ گہرا سبز پان نیچے کے حصوں کو ڈھانپنے کے کام آتا تھا۔ قیاس ہے کہ مسز قابیل جیسی فیشنی لڑکیاں اس وقت بھی مکس اینڈ میچ کرکے پان لپیٹا کرتی تھی ، صرف ایک قباحت تھی کہ اکثر پانی کا چھڑکاؤ کرنا پڑتا تھا تاکہ کپڑے تازہ رہیں۔انسانی ذہن کے ارتقاء سے کپڑے وجود میں آگئے لہٰذا پان کا رول بھی تبدیل ہو گیا۔ ہندوستان میں پان بکثرت پایا جاتا تھا اور دانشور نام کو بھی نہیں لہٰذا "بدھ "نے انہیں "مت"دینے کی ٹھانی۔ یوں بدھ مت پروان چڑھی ، جس نے کسی پیڑ کو بھی تکلیف نہ دینے کا درس دیا، بھلا پھر پان کو بیل سے کون نوچتا؟......یہ نوچ کھسوٹ اور پان کا استحصال تو مغلوں کے آنے پر شروع ہو اجنہیں ایک ہی وقت میں بہت ساری بیگمات رکھنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کئی بیگمات ٹھیک سے ٹوتھ پیسٹ بھی نہ کرتی تھیں لہٰذا شاہی طبیب کو حکم ہو اکہ کو ئی ایسی چیز ایجاد کرو جو منہ کی بدبو کو خوشبو میں تبدیل کر دے۔ یوں پان کی شامت اعمال آئی اور اس کا استعمال شروع ہوا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ پان پر ریسرچ ہوتی رہی، فارمولے بدلتے رہے ، تراکیب بدلیں مگر نہ بدلا تو پان نہ بدلا۔پان میں تخلیقی "بیکٹیریا "بھی ہوتا ہے لہٰذا فنون لطیفہ میں اسے بہت سراہا گیا ، نواب جمن مرزا کے توحرم میں کوئی خاتون داخل ہی نہیں ہو سکتی تھی جس کے منہ پر پان کی لالی نہ سجی ہو......چچا غالب بھی پان کے بغیر شاعری نہ فرماتے تھے لیکن پان وہ صرف دارو کی بو ختم کرنے کے لئے کھایا کرتے تھے ، یوں خوب پان کھایا کرتے اور خوب تر شاعری کرتے .......حالی کی بدحالی میں پان کا بڑا ہاتھ ہے۔ ذوق بدذوق ہوتے اگر پان نہ کھاتے اور داغ نے تو اپنا تخلص پان کا داغ لگ جانے پر داغ رکھ لیا تھا ۔ پھر پان کو فنا ہوتا دیکھ کر فانی بنے، حشر پان کا حشر دیکھ کر اس حشر کو پہنچے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کو ملک بدری میں بادشاہت چھن جانے سے زیادہ قلق اس بات کا تھا کہ برما میں پان نہیں ملتا تھا۔ پان نے ان شعراء کے کلام کو کوٹھوں میں زندہ رکھا۔ کلام سننے والوں کی تواضع پان سے ہی ہوتی تھی البتہ اختتام پر جیب میں اتنے پیسے بھی نہ رہتے کہ ایک گلوری پان کھا سکیں لیکن جیسے ہی ان شرفاء کی جیب پھر سے بھری ہوتی تو کوٹھوں پر پان کھانے کے لئے جا پہنچتے۔

(پتنگ بازی (ڈاکٹر یونس بٹ

ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا تو وہ کھیل نہیں رہتا ٗ کام بن جاتا ہے"پتنگ بازی میں جو بوجھ دماغ پر پڑتاہے ۔ اس کھیل میں بندے کوکوٹھے پر جانا پڑتا ہے اور ہم کوٹھے پر آنے جانے کو اچھا نہیں سمجھتے .....ہم نے ایک پتنگ باز سے پوچھا ۔"پیچ لڑانے سے فائدہ.....؟"کہا۔"کلائی مضبوط ہوتی ہے۔"پوچھا۔ "مضبوط کلائی کا فائدہ......؟"کہا ۔ "پیچ لڑانے میں آسانی ہوتی ہے۔"پیچ سیاست کی طرح پر پیچ ہوتے ہیں مگر پتنگ بازی اور سیاست میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں اول الذکر کے لئے ڈور اور آخر الذکر کے لئے بیک ڈور کی ضرورت پڑتی ہے ۔ امریکہ اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمانوں پر پہنچنے کی کوشش کی جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہر سال بذریعہ "پتنگ"کئی لوگ خدا کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

(میرا حرف حرف شاعر (معراج یاسمین

کبھی لائبریری سے کتابیں منگوائیے ، چونکہ لائبریری پر ہر شخص کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر بندہ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کتابوں پر کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ہے ۔ بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی پر کنٹرول نہیں رہتا جبکہ بعض صفحات پر "تاریخی قلمی جنگیں "لڑی جا رہی ہوتی ہیں جو پڑھنے والے کو خاصا محضوظ کر تی ہیں ۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ہم نے لائبریری سے ایک کتاب منگوائی ، غالباً احمد فراز یا فرحت شاہ کی تھی۔ اس میں ایک شعر تھا ( اور بھی تھے ) جو ٹھیک سے یاد تو نہیں مگر الفاظ یہ تھے۔ "نرگس و شہلا بیمار" اس کے نچے ہی کسی منچلے نے لکھ دیا تھا۔ "مگر نرگس اور شہلا تو بالکل تندرست ہیں ۔ "کسی اور نے اپنی عقلمندی جتاتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ! ضروری نہیں کہ یہ تمہارے والی نرگس اور شہلا ہوں ۔ "پہلے والے نے " تمیز " کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ہو گا تمہارا باپ۔۔۔"باپ کا نام سنتے ہی دوسرا غیرت سے بلبلا اٹھا اور لکھا "اوئے ! دیکھ میرے باپ پہ مت جا ۔۔۔"پہلے والے نے بھی اپنا فرض نبھایا اور یہ الفاظ لکھے ۔ "اے اے ، زبان سنبھال کر بات کرو ۔ میں" اوئے" نہیں "اوئی " ہوں۔ اس کے بعد پہلے والے کو سانپ سونگھ گیا ، شایدوہ جان گیا تھا کہ وہ اؤئی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔کچھ کو ہر صفحے کوئی نہ کوئی شعر یا کوئی نہ کوئی بات لکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے ہی کسی صاحب نے کتاب پڑھتے پڑھتے اس پر احمد فراز کا یہ شعر لکھ دیا۔۔۔"ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازکچا تیرا مکان ہے ، کچھ تو خیال کراس شعر کو پڑھ کر کسی "مستقبل "کے شاعر کو اپنا دیوان کھولنے کا اس سے بہتر موقع نظر نہ آیا ، انہوں نے نیچے لکھ دیا۔۔۔ ؂ان لڑکیوں سے دوستی اچھی نہیں فرازبچہ تیرا جوان ہے کچھ تو خیال کراسی کتاب کے ایک دوسرے صفحے پر انہی دونوں حضرات نے اپنا ذوق و شوق یوں بیاں فرمایا ۔۔۔پہلے والا ۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےدوسرے کی رگ ظرافت بھڑکی اور اس نے شعر کو کچھ یوں رقم کیا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے "عابد ! تیری بھرجائی کدھر ہے"کسی "تیسرے "منچلے کو بھی اس "بحث " میں حصہ لینے کا شوق ہوا۔ غالباً موصوف سرائیکی اور خالص "بھاکری"تھے۔ انہوں نے قلم کا جادو کچھ یوں جگایا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ میں چھپر تے چڑھ جاواں توں لاندھا ایں کہ میں آپ آواںپچھلے دنوں شاعری کی ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کتاب تو اچھی تھی مگر اس میں جا بجا بکھرے "اہل ذوق" کے دل چسپ تبصروں نے اسے مزید دل چسپ بنا دیا تھا۔ مثلاً ایک شاعر ایک جگہ لکھتا ہے ۔۔۔۔ ؂میں ماروں گا منع کر اس کو بے بےجمالا مجھ پر تھوکیں سوٹتا ہےنیچے کسی تبصرہ نگار نے اپنی "تبصرہ نگارانی" فطرت کو سکون پہنچانے کے لئے لکھا تھا ۔"لوجی بھلا کوئی پوچھے کہ جب تم خود "جمالے"کو مار سکتے ہو تو "بے بے " کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہی کیا ہے؟ کھینچ کر جمادو، ایک تھپڑ ۔ اپنے ہاتھ کسی کو ادھار دئیے ہوئے ہیں کیا؟"لیجئے صاحب انہوں نے تو بیچارے "فریادی"کو ہی ڈانٹ کر رکھ دیا۔۔۔ آئیے ، دیکھتے ہیں کہ ایک اورحضر ت "ان "سے کیا کہہ رہے ہیں۔"ارے واہ ، بھائی صاحب ، ایک تو وہ بیچارہ ہنگامے جھگڑے میں پڑنے کی بجائے بڑوں کو بیچ میں لاکر معاملہ سلجھانا چاہتا ہے اور آپ "آنپڑیاں " ہی مارے جارہے ہیں۔۔۔ شرم تو نہیں آتی بچوں کولڑواتے ہوئے؟"خیر قارئین ! بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی ان دونوں "معزز"حضرات نے بنا دی ۔ بیچارہ شاعر تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں "ایسی" اردو بولی جاتی ہے۔ ویسے "دیہاتیوں کی اردو"سے ہمیں "کچھ "یاد آ گیا ہے کہ ایک دیہاتی کراچی کی سیر کرنے ٹرین پر جا رہا تھا کہ اس کے ساتھ والا مسافر یعنی "ہم سفر"اس کے ساتھ یوں مکالمہ کرتا ہے۔ ہم سفر: کیوں ، بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟دیہاتی: جی میں کراچی جا "رہیا"ہوں۔ہم سفر: آپ کو وہاں پر کوئی کام ہے یا رشتہ داروں سے ملنے جا رہے ہیں؟دیہاتی: بس جی "تھوڑی باڑی"سیری واسطے جا "رہیا "ہوں۔ہم سفر: (دیہاتی کی اردو پر مسکراتے ہوئے) مگر ، بھائی کراچی کے لوگ تو اردو بولتے ہیں ، کیا آپ کو اردو آتی ہے؟ (خیال رہے کہ اب تک کی گفتگو اردو اور سرائیکی میں ہو رہی تھی)دیہاتی: ہاجی، ہا۔ہم سفر: اچھا اگر کوئی آپ کے پاؤں پر چڑھ جائے تو آپ کیاکہیں گے اسے؟دیہاتی: "کینڑاں "کیا ہے جی ، بس "ایہو" کہوں گا کہ دیکھتے ہو نہ "بھا لیتے " ہو پیر تے چڑھے ویتے ہو۔

کل جوان چھٹی کرے گا

فوج کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اگرچہ اس سے متعلق افراد صرف زمانہ جنگ میں ہی مصروف عمل نظر آتے ہیں اور اس دوران انہیں جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑتاہے مگر زمانہ امن میں لمبی تان کر سوتے ہیں۔ عموماً سات ، ساڑھے سات صبح ڈیوٹی پر آمد ، معمول کی پریڈ اور پھر دن بھر گپیں ہانکنا۔ ایک، ڈیڑھ بجے سہ پہر قطار بندی FALL IN پھر چھٹی اور پھر عیش ہی عیش .......یہ مروضہ افسران کی حد تک تو شاید درست ہو مگر عام سپاہیوں یعنی"جوانوں "(جن میں ساٹھ ساٹھ برس کے بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں) کو بعض اوقات تعطیل کے دن بھی عام دنوں سے زیادہ کام پڑجاتاہے جس کا کچھ احوال حسب ذیل واقعہ سے سمجھا جا سکتاہے۔فوجی روایات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آغاز ہفتہ کے پہلے دن علی الصبح ڈیوٹی شروع ہونے سے قبل یا اختتام ہفتہ کو ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے یونٹ کا کوئی افسر سپاہیوں سے خطاب کرتا اور انہیں کچھ نئی ہدایات دیتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن ہفتہ کے آخری دن ، یعنی Weekendپر یونٹ افسر نے چھٹی کے وقت جوانوں کو جمع کرکے کچھ ہدایات دیں، نصیحتیں کیں اور پھر بولا۔"کوئی شک.....کوئی سوال؟"ایک دبلا پتلا سا سپاہی ہاتھ اٹھاتا ہے۔"اوئے کھڑے ہو کر پوچھو.....کیا سوال ہے۔"افسر کڑک کر کہتا ہے۔"سر جی مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔"لرزتے ہوئے ہونٹوں سے اس نے کہا۔اوئے تو بیٹھ جا.....اور کسی کو کوئی شک ، کوئی سوال؟"افسر نے گرج کر کہا اور پھر سب کی ماں مر گئی۔ اب اجتماع میں ہر طرف سکون ہی سکون، ٹھنڈک ہی ٹھنڈک ہے۔ پھر پہلے کی نسبت کچھ نرم لہجہ میں افسر کہتاہے۔"ہاں تو جوانوں کل اتوار ہے.....جوان چھٹی کرے گا۔"یکدم فوجیوں کے چہروں سے خوشی پھوٹنے لگتی ہے ۔ وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے ہیں ، فضا میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پیدا ہوتی ہے۔ افسر کی تیوری پر بل پڑ جاتے ہیں، وہ انہیں ڈانٹتاہے۔"اوئے شٹ اپ ! پوری بات سنو....."اور سپاہیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ وہ گلا صاف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "ہاں ، تو میں کہہ رہا تھا کہ کل جوان چھٹی کرے گامگر تھوڑا ساکام بھی ہے۔ صبح چھ بجے کرنل صاحب کے بنگلے پر پہنچنا ہے۔ "سپاہیوں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور وہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر افسر اسی لاپرواہی اوربے نیازی کے ساتھ کہہ رہا ہے۔ "ہاں تو میں کہہ رہا تھا....کتنے بجے .....؟""چھ بجے ، سر !"غمزدہ دل اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ سب ایک ساتھ کہتے ہیں۔"ٹھیک ".....افسر اطمینان کیساتھ کہتا ہے۔ "صبح چھ بجے کرنل صاحب کے گھر پہنچ کر ان کا لان ٹھیک کرنا ہے۔ بالکل ٹھیک ، فٹ فاٹ .....بس یہی کوئی چھ سات گھنٹے کا کام ہے ۔"سپاہی کچھ سکون کا سانس لیتے ہیں تو ان پر دوسر احملہ ہوتاہے۔ "ایک بجے جوان لنچ کرے گا، ایک گھنٹے کا فرصت۔ پھر دو بجے یونٹ آفس کو ری سیٹ کرنا ہے، بس تین چار گھنٹہ لگے گا.....سمجھا کچھ؟""جی سر ! سمجھ گئے....."بیک آواز سب نے کہا۔"ٹھیک......کوئی شک ، کوئی سوال ؟"افسر زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا ۔ لیکن اس با ر نہ کوئی شک ، نہ سوال۔ مگر افسر دلوں کا بھید نہیں جانتا، وہ کہہ رہا ہے۔"ناؤ ڈسمس ..... "اور سپاہی بوجھل قدموں سے کل کی چھٹی کو گالیاں بکتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔

Thursday, July 2, 2009

(کار بے کاری (جمشید انصاری


اپنے "صاحب" ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بعد ہم نے مناسب اقدامات کرنے کے بارے میں شدت کے ساتھ غورو خوض شروع کر دیا۔ ان اقدامات میں ایک موٹر خریدنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ چونکہ اس سے قبل ہمار ا اس قسم کی کسی چیز سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا اس لئے ہم کو کافی سوچ بچا ر کی ضرورت پڑی۔ یہ چاہت اس حد تک بڑھی کہ اب ہم کو ٹماٹر کی چٹنی ، موٹر کی چٹنی لگتی اور دیکھتے ہی پہئے کا تصور ہماری نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتا۔ اس موقعہ پرہم کو اپنی پرانی سائیکل پر شدت سے غصہ آنے لگتا۔ خاندان کی معقول روایتوں سے ظاہر ہوتا تھاکہ ہمارے دادا جان کے ماموں زاد بہن کے سالے نے یہ سائیکل خریدی تھی جو تحفہ کی شکل میں منتقل ہوتی ہوئی اب ہماری بیٹھک کی زینت بنی ہوئی تھی۔ایک دن ہمیں خیال آیاکہ موٹر کمپنیوں سے رجوع کرناچاہئے۔ چنانچہ کئی موٹر کمپنیوں کے چکر کاٹے مگر ان کی صرف قیمتیں ہی سنکراختلاج ہونے لگا۔ اس کے بعد گیراجوں کے طواف کرنے کا منصوبہ ذہن میں آیا۔ ایک گیراج میں پہنچے ۔ ایک نہایت مستطیل قسم کے ثقیل مستری جی، ایک موٹر کے نچلے حصے میں پڑے ہتھوڑے چلا رہے تھے۔ اپنے جثہ اور ان کی توند کے ناپ کے موازنے کے بعد ہم نے خودمیں اتنی ہمت نہ پائی کہ ان سے گفتگو کر سکیں مگر شکل یہ ہوئی کہ پاؤں دغا دے گئے اور صورت حال یہ پیدا ہوگئی کہ آگے تو خیر بڑھ ہی نہیں سکتے مگر پیچھے بھی نہیں ہٹا جاتا۔کافی دیر اسی طرح کھڑے رہے کہ انہوں نے ہماری موجودگی کا احساس کر لیا۔ چنانچہ اپنی کھوپڑی ذرا سی نکال کر ہم کو اور ہمارے مختصر اور قلیل جثے کو نہایت مضحکہ اور حیرت سے دیکھا۔ شاید سوچتے ہونگے کہ "ہیں، ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں۔" بہرحال ہم سوائے اس کے کیا کر سکتے تھے کہ نہایت معصوم شکل بنائے کھڑ ے رہیں۔ایسے گریس ملے تیل سے بھرے ہوئے کالے کالے "پھاؤڑے"(ہم ان کو ہاتھ ماننے کو قطعی تیار نہیں) پتلون کی پشت سے ابھرے ہوئے کوہان پر رگڑ کر وہ ہم سے مخاطب ہوء ۔ "ارساد؟""جی وہ ہم کو ایک .......ہمارا مطلب ہے".......ہم خشک حلق تر کرتے ہوئے خوفزدہ ہو کر بولے۔"ہم کو ایک پرانی موٹر کی ضرورت ہے۔""ہوگی جی ، جرور ہوگی۔"وہ باہر نکلتے ہوئے بولے۔"اجی.......پھر ذرا دکھادیں ہمیں۔""آئیے اندر تشریف لائیے۔ " ہتھوڑا گھما کر انہوں نے اندر چلنے کا اشارہ کیا اور ہم بدک کر ان کے ساتھ "تشریف" لے چلے۔ کچھ دور اندر جا کر انہوں نے ہم کو ایک موٹر کے "ڈھانچے"کے پاس لاکھڑا کیا جس کو شاید وقتی ضرورت کے تحت ، بیت الخلاء کے بھی مصرف میں لے آیا جاتا تھا۔"ملاحجہ فرمائیے۔"انہوں نے قوی ہیکل اسکرو ڈرائیور ہماری کمر میں گھما کر "ارساد"فرمایا۔ہم نے بڑی حیرت سے اس لاش کو "ملاحجہ"کیامگر کافی دیر کے بنظر غائر "ملاحجے"کے بعد اس میں موٹر کے کوئی آثار نہ معلوم کر سکے۔"مگر موٹر میں تو پہئے بھی ہوتے ہیں۔"ہم ڈرتے ڈرتے بولے۔"جی ہاں پھر۔"انہوں نے ادھ جلی بیڑی جلانے کی کوشش میں ناک جلاتے ہوئے کہا۔"تو پھر اس میں کہاں ہیں؟""ازی لگ جائیں گے وہ تو۔"اپنی سرخ ناک کو سہلا کر انہوں نے غصہ سے کہا۔ حالانکہ ہم صحیح عرض کر تے ہیں کہ ان کی ناک جلانے میں ہمار اقطعی کوئی ہاتھ نہیں تھا۔"اور وہ گدیاں وغیرہ؟""ازی ان کا کیاہے، جری دیر کا تو کام ہے۔ لگادیں گے، جھٹاپٹ۔""اور دوسرے پرزے ۔ ایکسیلیٹر ، دروازے .....باڈی.....رنگ و روغن"....."وہ بھی۔"دانت نکالتے ہوئے ارشاد ہوا۔ازی لگ جائیں گے نا، تنگ کیوں کررہے ہو۔ لینا بھی ہے کہ خالی پیلی مخول بازی کررہے ہو۔ اگر ایسے تکراری گاہک آنے لگیں تو ہولی دوکانداری، مہربانی سے آپ تشریف لے جائیں۔"اور ہم ان کی ہدایت کے مطابق اپنے گھر تشریف لے آئے۔ دوسرے دن ہم نے ایک اور گیراج پر حاضری دی۔ایک مولوی باریش مولوی ابوالحاج قسم کی ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ جھپٹ کر ہم نے سلام کیا۔ خوش ہو کر بولے۔" استغفراللہ۔"ہم حیران ہو کر بولے۔"جی۔"کچھ شرمندگی کے لہجے میں بولے۔ "لاحول ولا، میرا مقصد یہ تھا کہ وعلیکم السلام .......استغفراللہ!" پھر ذرا خفا ہو کر بولے۔"فرمائیے کیا چاہیے۔"ہم نے خوش ہو کر کہا۔"موٹر"....."استغفراللہ۔"وہ برابر سے گزرتی ہوئی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہوئے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے۔ "جی۔"ہم گھبرا گئے۔"میں نے کہا استغفراللہ ۔ تو گویا موٹر؟ تو مل جائے گی آپ کو موٹر۔""اچھا ۔"ہم مسرت سے بھرپور لہجے میں بولے۔"جی ہاں.....استغفر.......بس ایک کمی ہے گویا کہ ورنہ بالکل نئی ہے۔ درجہ اول ہے استغفراللہ۔""ہیں ، کس چیز کی کمی ہے؟ "ہم گویا متوحش ہو کر بولے۔"فقط ذرا......فقط ذرا استغفراللہ نہیں ہے۔""قیں......ہیں.......کس چیز کی کمی ہے؟""ارے لاحول ولا۔ میرا مطلب تھا کہ فقط ذرا انجن نہیں ہے۔ وہ کہیں اور سے خریدنا پڑے گا۔ جناب والاکو ........استغفراللہ۔"مولانا شرمندہ ہو کر سر کھجاتے ہوئے بولے۔"آپ کی .......آپ کی کھوپڑی میں جو بھس بھرا ہے نا، یہ دیسی ہے یا ولایتی یا مکس مال ہے۔ "ہم نے جل کر کہا۔آگے کی اطلاع یہ ہے کہ اس خوبصورت سوال نے کچھ ایسا اثر کیا کہ تلملا کر بولے۔"کیا مطلب ؟""مطلب واضح ہے۔ "ہم نے جلانے والے انداز میں کہا۔ جواباً سڑ کر مولانا صاحب نے نزدیک پڑا ہوا ڈھیلا اٹھا کر ہمارے سر کو تاک کے پھینکا ۔ اب ہم استاد آدمی نیچے سرک لئے۔ نتیجتاً پتھر چلا، ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور پوری شدت کے ساتھ جا کر لگا سامنے خان صاحب کو۔خان صاحب تازہ تازہ افغانستان سے آئے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اپنے گھٹے ہوئے سر کی اس توہین کو برداشت نہ کر سکے اور جواب میں تازہ تازہ استنجا کا ڈھیلا رسید کیاجس کو مولانا صاحب نے اپنی ناک پر وصول کیا۔ قارورہ کی یہ بدتمیزی ان سے برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے ایک پیارا سا لفظ خان صاحب کے متعلق عرض کیا۔ اب ہوا تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ کچھ گالم گلوچ کے بعد ہاتھا پائی کی ٹھہری۔ جس کے نتیجے میں مولانا صاحب کی دھول جھاڑ کر رکھ دی گئی۔ سر پر دو چار ٹیلے ابھر آئے، ایک دانت نے بغاوت کر دی اور بس .......اب یہ تو ظاہر ہے کہ ہم وہاں سے بھاگ ہی لئے ہونگے۔اب جو ہم نے اس واردات کو اپنے دوستوں سے دہرایا تو ایک صاحب بگڑ کر بولے۔"اماں یہ سب مصیبتیں اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میرے چچا کے پاس ایک موٹر ہے فروخت کے لئے۔ چلے جاؤ ان کے پاس ۔"ہماری ہمت جو مندرجہ بالا دو درد ناک واقعات کے پیش آنے سے پست ہو چکی تھی پھر لنگوٹ باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ بصد شکریہ ان کے چچا کا پتہ حاصل کیا گیا۔ اس رات ہم صرف ایک گھنٹہ کے لئے سو سکے۔ مارے خوشی کے آنکھ ہی نہ لگتی تھی مگر اسی گھنٹہ بھر کے خواب میں ہم کو کشف ہو گیاکہ اب ایک موٹر کے مالک بن چکے ہیں۔ چنانچہ ہم پورے یقین کے ساتھ صبح ان کے چچا جان کے گھر چلے گئے۔ان کی ملاقات سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کہلاتے ہیں۔ ویسے ہے تو ان کی پرچون کی دکان مگر ان کے دادا کسی سکول میں ماسٹر لگ گئے تھے۔ بس اب ان کی اولاد خودبخود پروفیسر بنتی چلی جا رہی ہے۔انہوں نے جو گاڑی ہم کو دکھائی ہم نے بلا رد و کد اس کو قبول کر لیا......گاڑی نہایت پرانی تھی اس لئے لامحالہ ہم نے اعتراض کیا ۔ جواب میں وہ منہ پھاڑ کر بولے ۔ "ارے آپ کو نہیں معلوم ، اولڈ از گولڈ۔"اس انگریزی محاورہ پر ہم رعب میں آکر خاموش ہو گئے ۔ وہ دوبارہ بولے۔"اور صاحب ! یہ تو خوش قسمتی ہے کہ آپ اس نادر اور قیمتی تاریخی موٹر کے مالک بننے جا رہے ہیں ایڈورڈ ہشتم کی ذاتی گاڑی تھی یہ۔""اچھا "......ہم نے آنکھیں پھاڑیں۔"اور نہیں تو کیا ، اس پر خاص الخاص انہی کی تشریف آیا کرتی تھی۔ان کے بعد پتہ ہے کس کے پاس آئی یہ موٹر ؟" پھر خود ہی فرمایا۔ "اس کے بعد یہ آئی جناب والا......جارج پنجم کے پاس......ایک بیڑی ہو گی آپ کے پاس ؟"وہ بولے ۔اس موقع پر ایسی نادر روز گار اور تاریخی موٹر کے مالک کی اس لاچاری، عسرت اور غربت پر شدت سے قلق ہوا اور اس سے زیادہ اپنے پاس بیڑی موجود نہ ہونے پر افسوس ۔یکایک پیچھے سے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں، معلوم ہوا بہت سارے بچے ہماری شکل دیکھ کر ہنسی اڑا رہے ہیں ۔ ہم نے فوراً پروفیسر صاحب سے مدد لی اور خود بھی ڈانٹنے کی کوشش کی اور چنگھا ڑ کر بولے۔ " کیوں ہنس رہے ہو؟"جواب میں "لولو"اور "پونگو "قسم کے چند بے ہودہ نام پکارے گئے۔ خفا ہو کر پروفیسر صاحب نے اس شیطانی پلٹن کو ڈانٹا۔جواب میں ایک ڈھائی فٹے مسکرا کر بولے۔"ابا ......پونگو، چرخٹ، ہولٹ۔"گڑبڑا کر پروفیسر صاحب نے ہم کو دیکھا اور ہم کو متوجہ پا کر اس سانحہ سے ہماری توجہ ہٹانے کے لئے ہم کو اندر سے معائنہ کرانا شروع کر دیا۔ویسے تو خیر کوئی عیب نہ تھا ۔ ذرا ایک ہیڈ لائٹ کم تھی۔ بہر حال یہاں ہم ٹارچ سے بھی خوبصورتی سے کام چلا سکتے تھے۔ اسٹیرنگ وہیل "شاہی کھسوں "سے ذرا دبلا ہو گیا تھا۔ ہم نے نہایت عقیدت سے اس کو دیکھا۔ آخر کو بادشاہی رگڑوں سے گھسا تھا۔ونڈ اسکرین آدھا ٹوٹ گیا تھا۔ جس کی جگہ کارڈ بورڈ اور گتے کے ٹکڑے نہایت خوبصورتی سے استعمال کئے گئے تھے۔ ان کو قائم رکھنے کے لئے بجلی کی تاروں سے ایک جال تیار کرد یا گیا تھا جس کو لکڑیوں کے جالوں نے مزید پختہ کر دیا تھا۔ ویسے گئیر کی ڈنڈی بھی مفقود تھی مگر اس کی جگہ بھرنے کی خاطر ایک سرکنڈے کو ڈامر سے خوب اچھی طرح جکڑ دیا گیا تھا اور "نقل مطابق اصل" ہوگئی تھی۔اسپیڈو میٹر چڑے چڑی کا آشیانہ موجود تھا۔آزمائشی طور پر بیٹھنے کے بعد ہم پر اس کی ایک اور خوبی کا انکشاف ہوا اور وہ یہ کہ عموماً عام قسم کی موٹروں میں نرم نرم اور اچھے اچھے گدیلے لگائے جاتے ہیں جن پر بیٹھنے سے طبیعت میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسل مندی جسم کو گھیر لیتی ہے اور نوبت بہ ایں جارسید کہ اکثر اوقات حوائح ضروریہ کی فراغت کے سلسلے میں بیت الخلاء تک جانے کے لئے کار کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ تو تاریخی اور شاہی موٹر تھی نا۔ اس میں ان تمام خرابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ بیٹھنے والا ان تمام مردہ کرنے والی ضرورتوں میں مثلاً کاہلی ، سستی ، کسلمندی وغیرہ میں نہ مبتلا ہونے پائے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے سیٹ پر گدیوں وغیرہ سے قطعی پرہیز کیا گیا تھا اور اس کی بجائے خالص کھجور کے ریشے پٹیوں سے جکڑ کر کیلوں کی مدد سے باندھ دئیے گئے تھے۔ جن میں کیلوں کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ لحظہ بہ لحظہ چبھتی رہاکریں اور ذرا بھی سستی پید ا نہ ہونے پائے ۔ مزید برآں کھٹملوں کے بھی پولٹری فارم کھلوا دئیے گئے تھے۔ بہر حال تمام خوبیوں یا خرابیوں نے ہم پر کوئی اثر نہ کیا۔ موٹر کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مسلم تھی۔ہم پروفیسر صاحب سے اگلے دن ٹرائی لینے کو کہہ آئے اور ساتھ انہیں کار کی خریداری پر پُر امید رہنے کا مشورہ دیا۔گھر آکر ہم نے ہر خاص وعام پر منکشف کر دیا کہ اب ہم بھی عنقریب کاروالے بننے والے ہیں اور ایسی ویسی موٹر کے مالک نہیں بننے والے بلکہ خاص شاہی گاڑی کے کہ جس پر سلاطین فرنگ کی سواری رہا کرتی تھی۔ ہم ایسی نادر موٹر کے مالک بننے کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس رو ز مارے خوشی کے ہم نے اپنی امت کی دن میں کئی بار ٹھکائی کی ورنہ اس سے قبل دن میں ایک آدھ بار مار لگا لینے پر اکتفا کر لیتے تھے۔دوسرے دن مارے خوشی کے ہم صبح ساڑھے چھ بجے ہی پروفیسر صاحب کے دولت کدے پر جا حاضر ہوئے ۔ آنکھ ملتے ہوئے بیزار بیزار سے نکل کر آئے اور ہم کو ذرا ٹھہر کے ٹرائل لینے کا مشورہ دیالیکن ہمارے اصرار پر ان کو مجبوراً یہی وقت آزمائش کے لئے چننا پڑا۔موٹر کے قریب پہنچتے ہی ہم بلا کسی دوسرے کام کے موٹر میں جا گھسے ۔ آخر کیوں نہ گھستے اب یہ ہماری سرپرستی میں تشریف لانے والی تھی۔"اجی اترئیے۔"پروفیسر صاحب جمائی لے کر بولے۔"کیوں ؟"ہم حیران ہو کر بولے۔"اجی دھکا لگے گا نا"وہ بولے۔"قیں".......ہم حلق میں تھوک نگل کر بولے۔ "ہیں.....دھکا ؟""جی ہاں......دھکا......بھئی شاہی گاڑی ہے نا، اجی اس کو شاہی وقتوں میں غلام دھکے لگا کر اسٹارٹ کیا کرتے تھے۔ آخر کو شاہ و عام میں کچھ تو فرق روا رکھنا پڑتا ہے۔ "وہ ہم کو ہتھے سے اکھڑتا دیکھ کر بولے۔ چنانچہ ان کا تیر کام کر گیا اور ہم شاہی غلاموں کے دھکا لگانے کے معاملے سے خوش ہو کر بے چوں و چراں اتر گئے۔اب دھکا لگنا شروع ہوا۔ دو چار میل تک دھکا دے کر دوڑائے گئے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پسینے میں شرابور ہو گئے، ناشتہ ہضم ہو گیا اور حاجت ضروری کی تکلیف پیدا ہو گئی۔"اب اس کو ہینڈل لگے گا۔ "پروفیسر صاحب مسکرا کر بولے اور گاڑی کی پچھاڑی کا ڈھکنا اٹھا کر اس میں غرق ہو گئے۔ دس منٹ کی کھٹ پٹ کے بعد انہوں نے لوہے کا ایک مڑا ہوا آلہ نکالا۔"یہ ہینڈل ہے۔"انہوں نے عینک صاف کرتے ہوئے کہا اور ہم نے بڑی عقیدت سے اس شاہی اوزار کو دیکھا۔ ہمیں اب واقعی موٹر کے شاہی ہونے کا یقین ہوتا جارہا تھا۔ہینڈل کو انجن میں ڈال کر انہوں نے خوب زور زور سے گھمانا شروع کر دیا۔ مارے تکلیف اور اذیت کے موٹر چیخنے چلانے لگی اور گھڑ گھڑا گھڑ گھڑا کر اس نے ہم سے فریاد کی۔ ہم کو بہت ترس آیا اور شفقت سے ہم نے اس پر ہاتھ پھیر پھیر کر پچکارنا شروع کردیا۔ اچانک موٹر زورسے چیخی جیسے زلزلہ آگیاہو۔ ہم ہڑبڑا کر ایک طرف بھاگ نکلے۔ پروفیسر صاحب ہم کو بھاگتے دیکھ کر پوری قوت سے چیخے ۔ "ارے صاحب کہاں چلے ، ارے دھکا دیجئے ......دھکا۔"ہم اسی رفتار سے واپس آئے اور پروفیسر کو دھکیلنے لگے۔"ارے مجھے نہیں ، صاحب ! موٹر کو دھکا لگائیے۔"پروفیسر صاحب بلبلا کر بولے۔ہم نے شرمندہ ہوکر ان کو چھوڑ دیا اور موٹر کو دھکا لگانے لگے۔ اب زلزلہ کی شدت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ دفعتاً موٹر تھوڑا سا خودبخود رینگی اوراچھل کر ایک طرف بھاگ چھوٹی۔ گڑبڑا کر پروفیسر صاحب چیخے ۔ "ارے روک کے۔ اماں بھاگئیے، انصاری صاحب ، اب رک".......ہم گھبرا کر موٹر کے پیچھے بھاگے اور راستے ہی میں لپک لیا اب ہم باقاعدہ موٹر میں سوار تھے او ر دل ہی دل میں موٹر کی اس شاہانہ حرکت پر غور کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب اسٹئیرنگ کو دبوچ کو بولے۔"دیکھا صاحب !ملاحظہ فرمایا، موٹر کی نجیب الطرفینی کو ، آخر کو شاہی موٹر ہے نا۔"ہم پہلے ہی قائل ہوئے جا رہے تھے، تڑ سے گردن ہلا دی۔ موٹر کی ایک اور شاہانہ خوبی کا انکشاف بھی ہمیں چلتی موٹر میں بیٹھ کر ہوا کہ آواز تو موٹر کی راکٹ جیسی تھی لیکن چال وہی شاہی یعنی دلکی ۔ راستے میں لوگ شاہی موٹر کی اس دلکش آواز سے متاثر ہو کر کھڑے ہو جاتے اور دوکانیں چھوڑ چھاڑ ادب سے اس شاہی موٹر کو ملاحظہ فرماتے۔ دفعتاً پچھلے افق سے ایک دلکش گھنگھرؤں کی آواز آئی۔ ہم نے مڑ کر دیکھا، پیچھے ایک گدھا گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا گاڑی ہمارے برابر آگئی اور پھر تیر کی طرح آگے نکل گئی۔ مارے غیض و غضب کے ہماری بری حالت ہو گئی، گردن پھیر کر پروفیسر صاحب کو دیکھا، ان کی کیفیت ہم سے مختلف نہ تھی۔ مارے طیش کے بپھرے جاتے تھے مگر میری طرح خود وہ بھی مجبور تھے۔ رخ بدل کر دور افق پر غائب ہوتی ہوئی گدھا گاڑی کو دیکھ کر بڑبڑائے ۔ "اہم......بہم.......غررر .......غچ گدھا ہی تو ہے نا کم بخت! بادشاہی سواری نہیں پہچانتا۔ "پھر ہم سے مخاطب ہو کر بولے۔"کیوں صاحب ! یہ جب سے جمہوریت وغیرہ آئی ہے پرانی قدریں تو یک لخت ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔"یہ کہہ کر انہوں نے داد طلب نگاہوں سے ہم کو دیکھا۔ہم گدھا گاڑی سے زیادہ پروفیسر صاحب پر بھنا رہے تھے چنانچہ چانٹا سا مارا۔"قطعی غلط۔"پروفیسر صاحب چیں بہ چیں ہو کر بولے۔"قیں.....یعنی کہ کیا مطلب ؟"ہم بولے۔ "مطلب یہ ہوا ، بادشاہی نظام حکومت بھی کوئی نظام حکومت ہے؟"اس میں تو یکسر خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔"پروفیسر صاحب با ت کاٹ کر بولے۔"مثلاً۔"اس اثناء میں ہم چھٹی میں پڑھی ہوئی معاشیات اور معدنیات کے اہم نوٹس یا د کر چکے تھے اس لئے کھٹ سے بولے۔"مثلاً یہ کہ عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔ غریب ، غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ امراء کا طبقہ ، امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ موٹے سیٹھ توند بڑھائے جاتے ہیں۔"ہم جوش میں آکر مسلسل بولے جا رہے تھے۔ فصاحت و بلاغت کا ایک دریا تھا کہ ہمارے منہ سے امڈا چلا آ رہا تھا۔ پروفیسر صاحب کا نقطہ اشتعال ماچس کے قریب آتا جا رہا تھا۔ ارشاد ہوا۔"تو یعنی کہ گدھا گاڑی والے کی یہ حرکت پسند آئی آپ کو۔"اس مرحلہ پر ہم لاجواب ہو جاتے مگر دا د دیتے ہیں دماغ کو کہ ادھر سوال گونجا ادھر تڑ سے جواب حاضر ۔ لہٰذا ہم نے فوراً کہا۔" تو گویا اگر شاہی نظام ہوتا تو یہ موٹر آپ کے نیچے ہو سکتی تھی؟وہ تو دعا دیجئے جمہوریت کو کہ زر کی تقسیم یکساں اور مساوی ہے۔"اس بات کا اگر پروفیسر صاحب جواب دیتے تو ان کی موٹر پر حرف آ جاتا۔ ادھر ہم بھی "زر "کے لفظ پر اصل رز اور اس پر سود یا د آ جانے کی وجہ سے اپنے میٹرک میں ڈیڑھ بار فیل ہوجانے پر دست تاسف ملنے لگے۔پروفیسر صاحب نے ہماری حاضر جوابی اور لاجواب ہوجانے کے بعد غصہ موٹر پر اتارنے کی کوشش کی اور سٹئیرنگ چھوڑ چھاڑ کر پیچھے پڑ گئے۔ ادھر وہ نیچے جھکے کہ گاڑی ڈگمگائی ۔ ہم نے گھبرا کر اسٹئیرنگ پکڑا تو وہ چلی سرکاری نالے کی طرف ۔ چنانچہ ہم نے گھبرا کر پروفیسر صاحب کو آواز دی۔ انہوں نے وہیں سے ہاتھ ڈال کر اسٹئیرنگ کھنچنا چاہا۔ نسل در نسل چلنے والی یہ تاریخ شاہی گاڑی پروفیسر صاحب کے جلال کی تاب نہ لا سکی اور اسٹئیرنگ کھٹ سے ٹوٹ کر ہاتھ میں آگیا۔ گڑ بڑا کر پروفیسر صاحب نے نعرہ لگایا۔"ارے ، بریک دبائیے بریک۔"ہم گھبرا گئے ، ہاتھ پاؤں پھول گئے، ہم نے بھی جوابی نعرہ لگایا۔ "کدھر؟"پروفیسر صاحب بولے۔ "وہ ادھر والا دائیں ہاتھ کو۔"اب جو ہم پروفیسر صاحب کے بتائے ہوئے مقام کی سمت دیکھتے ہیں تو وہاں ایک سوراخ میں سے دھات کا ایک جھنڈ تو جھانکتا نظر آتا ہے مگر بریک نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ مجبوراً سوراخ میں انگلی ڈال کر اس کو دبانا چاہا۔ وہ تو کیا دبتی اپنی ہی انگلی پھنس گئی۔"ہائے ، ہماری انگلی ۔" ہم بلبلا کر بولے۔نالہ بالکل قریب آ چکا تھا۔ پروفیسر صاحب نے لاچاری سے چاروں طرف دیکھا اور کود کر نالے کے قریب جا کھڑے ہوئے، نہایت پسپائت کے عالم میں انہوں نے موٹر روکنے کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔ موٹر تو خیر رک گئی مگر پروفیسر صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ نالے میں جا گرے۔ ہم موٹر سے اترنا ہی چاہتے تھے کہ رینگی تھوڑی سی موٹر اور اپنے آقا کے نزدیک ہی جا پڑی۔اب اس کے بعد کا قصہ بڑا طویل ہے۔ بس آپ اتنا اور سن لیں ک ہم نے کار اور پروفیسر صاحب کی شان میں کئی نامعقول اور بے ہودہ الفاظ استعمال کئے اور کار کے بغیر ہی اپنی "صاحبی "کو مکمل خیال کیا اور گھر پہنچ کر اپنی قدیم سائیکل سے رو رو کر معافی مانگی۔ اسی سلسلے میں بطور رشوت اس کی رپیرنگ بھی کرالی۔ ہم اب بھی صاحب ہیں لیکن "بے کار صاحب
(جمشید انصاری )