Friday, November 13, 2009

کرکٹ

اچھے سکولوں میں شروع سے ہی تربیت دی جاتی ہے کہ جس طرح مرغابی پر پانی کی بوند نہیں ٹھہرتی، اسی طرح اچھے کھلاڑی پر ناکامی کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض کمزور طبیعتیں اس نصیحت کا اس قدر اثر لیتی ہیں کہ ہر قسم کے نتائج سے بے پرواہ ہو جاتی ہیں لیکن اگر کھلے خزانے پہ اعتراف کر لیں کہ ہمیں جیت سے رنج اور ہار سے خوشی نہیں ہوتی تو کون سے عیب کی بات ہے؟ انگلستان کا بادشاہ ولیم فاتح اس سلسلہ میں کمال بے ساختگی و صاف دلی کی ایک مردہ مثال قائم کر گیا ہے جو آج بھی بعضوں کے نزدیک لائق توجہ و تقلید ہے۔ ہوا یہ کہ ایک دفعہ جب وہ شطرنج کی بازی ہار گیا تو آؤ دیکھا نہ تاؤ ، جھٹ چوبی بساط جیتنے والے کے سر پر دے ماری جس سے اس گستاخ کی موت واقع ہو گئی۔ مورخین اس باب میں خاموش ہیں مگر قیاس کہتا ہے کہ درباریوں نے یوں بات بنائی ہو گی۔
"سرکار ! یہ تو بہت ہی کم ظرف نکلا۔ جیت کی ذرا تاب نہ لا سکا، شادی مرگ ہو گیا۔"
یہی قصہ ایک دن نمک مرچ لگا کر ہم نے مرزا کو سنایا، بگڑ گئے۔ کہنے لگے۔ "آپ بڑا فلسفہ چھانٹتے ہیں مگر یہ ایک فلسفی کا ہی قول ہے کہ کوئی قوم سیاسی عظمت کی قائل نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس نے کسی نہ کسی عہد میں اپنے کھیل کا لوہا نہ منوایا ہو۔"
ہم نے چھیڑا۔ "مگر قومیں پٹ پٹ کر ہی ہیکڑ ہوتی ہیں۔"
قوموں کو جہاں کا تہاں چھوڑ کر ذاتیات پر اتر آئے۔ "جس شخص نے عمر بھر اپنے دامن صحت کو ہر قسم کی کسرت اور کھیل سے بچائے رکھا، وہ غریب کھیل کی اسپرٹ کو کیا جانے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
اس کے بعد انہوں نے بتایا کہ مذکور الصدر مقام پر ہر ہفتے دوستانہ میچ ہوتے رہتے ہیں۔ (دوستانہ میچ سے مراد ایسا میچ ہے جس میں لوگ ہار کر بھی قائل نہیں ہوتے) ابھی گزشتہ سنیچر کو عینک لگانے والوں کی ٹیم نے سگار پینے والوں کو پوری نو وکٹوں سے شکست دی تھی اور پرسوں ان کی کمپنی کے کنوارے ملازمین اپنے افسروں اور ان کی بیویوں سے شوقیہ میچ کھیل رہے تھے۔ ہم نے کچھ ہچر مچر کی تو آنکھ مار کر کہنے لگے۔
"بے پردگی کا خاص انتظام ہو گا، ضرور آنا۔"
ہم ناشتہ کرتے ہی بغدادی جیم خانہ پہنچ گئے۔ پروگرام کے مطابق کھیل ٹھیک دس بجے شروع ہونا چاہیے تھا مگر ایمپائر کا سفید کوٹ استری ہو کر دیر سے آیا اس لئے چھپے ہوئے پروگرام کی بجائے ساڑھے گیارہ بجے تک کھلاڑی مونگ پھلی کھاتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پندرہ منٹ کی ردوکد کے بعد یہ طے پایا کہ جو ٹیم "ٹاس" ہارے وہی بیٹنگ کرے۔ پھر کلدار روپیہ کھنکا، تالیاں بجیں، معطر رومال ہوا میں لہرائے اور مرزا کسے بندھے بیٹنگ کرنے نکلے۔
ہم نے دعا دی۔ "خدا کرے ، تم واپس نہ آؤ۔"
مرزا نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور چلتے چلتے پھر تاکید کی۔ "کرکٹ مت دیکھو، کرکٹ کی اسپرٹ دیکھو۔"
ہم یہ بتانا بھول ہی گئے کہ روانہ ہونے سے قبل مرزا نے اپنے بلے پر جملہ تماشائیوں کے دستخط لئے۔ ایک خاتون نے (جو کسی طرف سے ان پڑھ معلوم نہں ہوتی تھیں) دستخط کی جگہ بلے پر اپنے ترشے ترشائے سرخ سرخ ہونٹ ثبت کر دئیے اور مرزا پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے وکٹ تک پہنچے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سارا راستہ الٹے قدموں طے کیا اور اگر بیچ میں وکٹ سے ٹکر نہ ہوتی تو شاید ساری فیلڈ اسی طرح پار کر جاتے۔
مرزا نے کرکٹ میں بھی وہی تیہا اور تیور دکھائے جو ہم ان کے مچیٹوں اور معاشقوں میں دیکھتے چلے آئے تھے، یعنی تکنیک کم اور جوش زیادہ۔ ۔ ۔ ۔ روانگی سے چند منٹ پہلے پیڈ کے تسمے باندھتے ہوئے انہوں نے ایک مرکھنے سے کلرک کو یہ ہتھکنڈہ بتایا کہ چھکا لگانے کی سہل ترکیب یہ ہے کہ خوب کس کے ہٹ جاؤ۔ کلرک نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھورتے ہوئے کہا۔
"یہ تو سبھی جانتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال یہ ہے کہ زور کا ہٹ کس طرح لگایا جائے؟"
مرزا اپنی بڑی بڑی آنکھیں لال کرکے بولے ۔ "میں تو یہ کرتا ہوں کہ ہٹ لگاتے ہوئے آنکھ میچ کر اپنے افسر کا تصور کرتا ہوں۔ خدائی کی قسم ، ایسے زور کا ہٹ لگتا ہے کہ گیند تارا ہو جاتی ہے۔"
مرزا کے کھیلنے بلکہ نہ کھیلنے کا انداز دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا کہ افسر کا ایک فوٹو نہیں بلکہ پورا کا پورا البم ان کی آنکھوں میں پھر رہا ہے اس لئے کہ وہ بلے کو پوری طاقت کے ساتھ گوپھن کی طرح گھمائے جا رہے تھے۔ تین اوور اسی طرح خالی گئے اور گیند کو ایک دفعہ بھی بلے سے ہمکنار ہونے کا موقع نہیں ملا۔ مرزا کے مسکرانے کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ اس صورت حال کو بولر کی نالائقی سے زیادہ اپنے استادانہ ہتھکنڈوں پر محمول کر رہے ہیں مگر اتفاق سے چوتھے اوور میں ایک گیند سیدھی بلے پر جا لگی۔ مرزا پوری طاقت سے بلا دور پھینک کر چیخے۔
"ہاؤ ازٹ؟"
ایمپائر دوڑا دوڑا آیا، بلا اٹھا کر انہیں پکڑایا اور بڑی مشکل سے سمجھا سمجھا کر دوبارہ کھیلنے پر رضامند کیا۔
مصیبت اصل میں یہ تھی کہ مخالف ٹیم کا لمبا تڑنگا بولر، خدا جھوٹ نہ بلوائے تو پورے ایک فرلانگ سے ٹہلتا ہوا آتا۔ ایک بارکی جھٹکے کے ساتھ رک کر کھنکارتا ، پھر خلاف توقع نہایت تیزی سے گیند پھینکتا۔ اس کے علاوہ حالانکہ صرف دائیں آنکھ سے دیکھ سکتا تھا مگر گیند بائیں ہاتھ سے پھینکتا تھا۔ مرزا کا خیال تھا کہ اس بے ایمان نے یہ چکرا دینے والی صورت انتقاماً بنا رکھی ہے لیکن ایک مرزا ہی پر موقوف نہیں، کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ گیند کیسے اور کہاں پھینکے گا بلکہ اس کی صورت دیکھ کر کبھی کبھی تو یہ شبہ ہوتا تھا کہ اللہ جانے پھینکے گا بھی یا نہیں۔"؟۔۔۔۔۔۔واقعہ یہ ہےکہ اس نے گیند سے اتنے وکٹ نہیں لئے جتنے گیند پھینکنےکے انداز سے۔۔۔ بقول مرزا۔
"مشاق بولر سے کوئی خائف نہیں ہوتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وکٹ ہی تو لے سکتا ہے، جان تو اناڑی سے نکلتی ہے۔"
سبھی کے چھکے چھوٹ گئے۔ گیند پھینکنے سے پہلے جب وہ اپنی ڈھائی گھر کی چال سے لہریا بناتا ہوا آتا تو اچھے اچھوں کے بلے ہاتھ کے ہاتھ میں رہ جاتے۔ ۔ ۔۔ ۔۔
؂
آگے بڑھا کوئی ، تو کوئی ڈر کےرہ گیا
سکتے میں کوئی ، منہ پہ نظر کرکے رہ گیا
ہر مرتبہ ظالم کچھ ایسے غیر پیشہ وارانہ جذبے اور جوش کے ساتھ کچکچا کے گیند پھینکتا ، گویا یہ وہ پہلا پتھر ہے جس سے ایک گنہگار دوسرے گنہگار کو سنگ سار کرنے جا رہا ہے۔ اس کے باوجود مرزا انتہائی دندان شکن حالات میں ڈنڈے گاڑے کھڑے تھے لیکن یہ درست ہے کہ رن نہ بننے کی بڑی وجہ مرزا کے اپنے پینترے تھے۔ وہ اپنا وکٹ ہتھیلی پر لئے پھر رہے تھے۔ وہ کرتے یہ تھے کہ اگر گیند اپنی طرف آتی ہوتی تو صاف ٹل جاتے لیکن اگر ٹیڑھی آتی دکھائی دیتی تو اس کے پیچھے بلا لے کر نہایت جوش و خروش سے دوڑتے (کپتان نے بہتیرا اشاروں سے منع کیا مگر وہ دو دفعہ گیند کو باؤنڈری لائن تک چھوڑنے گئے) البتہ ایک دفعہ جب وہ اپنے بلے پر لپ اسٹک سے بنے ہوئے ہونٹوں کو محویت سے دیکھ رہے تھے تو گیند اچانک بلے سے آ لگی اور وہ چمک کر ہوا میں گیند سے زیادہ اچھلے ۔ وکٹ کیپر اگر بڑھ کر بیچ میں نہ پکڑ لیتا تو ایسے اوندھے منہ گرتے کہ ہفتوں اپنی شکل آپ نہ پہچان پاتے۔ ۔۔ ۔ ۔ یوں بھی بعض کھلاڑی گیند کو دیکھتے نہیں، سنتے ہیں۔ یعنی ان کو اپنے قرب و جوار میں گیند کی موجودگی کا احساس پہلے پہل اس آواز سے ہوتا ہے جو گیند اور وکٹ کے ٹکرانے سے پیدا ہوتی ہے۔
چند اوور کے بعد کھیل کا رنگ بدلتا نظر آیا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا وکٹ گیند کو اپنی جانب اس طرح کھینچ رہا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو۔ ہم نے دیکھا کہ ساتویں اوور کی تیسری گیند پر مرزا نے اپنی مسلح و مسلم ران درمیان میں حائل کر دی۔ سب یک زبان ہو کر چیخ اٹھے۔
"مرزا انے دانستہ اپنی ٹانگ اس جگہ رکھی جہاں میں ہمیشہ گیند پھینکتا ہوں۔ " بولر نے الزام لگایا۔
"بکواس ہے۔ ۔۔۔۔ بات یوں ہے کہ اس نے جان بوجھ کر اس جگہ گیند پھینکی جہاں میں ہمیشہ اپنی ٹانگ رکھتا ہوں۔" مرزا نے جواب دیا۔
"اگر میرا نشانہ ایسا ہی ہوتا تو مرزا کبھی کے پویلین میں براجمان ہوتے۔" بولر بولا۔
"تو یوں کہو کہ تہماری گیند وکٹ سے الرجک ہے۔ " مرزا نے کہا۔
"میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مرزا نے عمداً ٹانگ آگے کی۔" یک چشم بولر نے خلیفہ سے کہا۔
ایمپائر نے دونوں کو سمجھایا کہ بحثابحثی کرکٹ کی اسپرٹ کے خلاف ہے۔ پھر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ بیٹس مین کے کھیل کے محتاط اسٹائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اسے ذرا بھی احتمال ہوتا کہ گیند اس طرف آ رہی ہے تو وہ کھٹاک سے وکٹ کو اپنی ٹانگ کے آگے کر دیتا۔ اس فیصلہ پر مرزا نے اپنی ٹوپی اچھالی اور جب وہ اپنی مرکز کی طرف واپس آ گئی تو پھر کھیل شروع ہوا لیکن دوسرے ہی اوور میں بولر نے گیند ایسی کھینچ کے ماری کے مرزا کے سر سے ایک آواز (اور منہ سے کئی) نکلی اور ٹوپی اڑ کر وکٹ کیپر کے قدموں پر جا پڑی۔ پھر جب ایمپائر نے دوبارہ مرزا کو ٹوپی پہنانے کی کوشش کی تو وہ ایک انچ تنگ ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود مرزا خوب جم کر کھیلے اور ایسا جم کے کھیلے کہ ان کی اپنی ٹیم کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اس اجمال پر ملال کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ہی ان کا ساتھی گیند پر ہٹ لگاتا ویسے ہی مرزا اسے رن بنانے کی پر زور دعوت دیتے اور جب وہ کشاں کشاں تین چوتھائی پچ طے کر لیتا تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر ، بلکہ دھکیل کر اپنے وکٹ کی جانب واپس بھیج دیتے مگر اکثر یہی ہوا کہ گیند اس غریب سے پہلے وہاں پہنچ گئی اور وہ مفت میں رن آؤٹ ہو گیا۔ جب مرزا نے یکے بعد دیگرے اپنی ٹیم کے پانچ کھلاڑیوں کا بشمول کپتان ذی شان ، اس طرح جلوس نکال دیا تو کپتان نے پس ماندگان کو سختی سے تنبیہہ کر دی کہ خبردار ! اب مرزا کے علاوہ کوئی رن نہ بنائے ۔ لیکن مرزا آخری وکٹ تک اپنی وضع احتیاط پر ثابت قدمی سے قائم رہے اور ایک رن بنا کے نہیں دیا۔ اس کے باوجود ان کا اسکور اپنی ٹیم میں سب سے اچھا رہا۔ اس لئے کہ رن تو کسی اور نے بھی نہیں بنائے مگر وہ سب آؤٹ ہو گئے ، اس کے برعکس مرزا خود کو بڑے فخر کے ساتھ "زیرو ناٹ آؤٹ" بتاتے تھے۔ ناٹ آؤٹ ، اور یہ بڑی بات ہے۔
کھیل کے مختصر وقفے کے ساتھ طویل لنچ شروع ہوا جس میں بعض شادی شدہ افسروں نے چھپ کر بئیر پی اور اونگھنے لگے۔ جنہوں نے نہیں پی وہ ان کی بیویوں سے بدتمیزیاں کرنے لگے۔ جب چائے کے وقت میں کل دس منٹ باقی رہ گئے اور بیرےچھپ چھپ کر پیالیاں لگانے لگے تو مجبوراً کھیل شروع کرنا پڑا۔ دو کھلاڑی ایمپائر کو سہارا دے کر پچ تک لے گئے اور مرزا نے بولنگ سنبھالی۔ پتہ چلا کہ وہ بولنگ کی اس نایاب صنف میں ید طولٰی رکھتے ہیں جسے ان کے بدخواہ "وائڈ بال" کہنے پر مصر تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہٹ لگے بغیر بھی دھڑا دھڑ رن بننے لگے۔ تین اوور کے بعد یہ حال ہو گیا کہ مرزا ہر گیند پر گالی دینے لگے۔ (شکار میں بھی ان کا سدا سے یہی دستور رہا کہ فائر کرنے سے پہلے دانت پیس کر تیتر کو کوستے ہیں اور فائر کرنے کے بعد بندوق بنانے والے کارخانے کو گالیاں دیتے ہیں) ہم بولنگ کی مختلف قسموں اور باریکیوں سے واقف نہیں، تاہم اتنا ضرور دیکھا کہ جس رفتار سے مرزا وکٹ کی طرف گیند پھینکتے ، اس سے چوگنی رفتار سے واپس کر دی جاتی۔ وہ تھوڑی دیر کج رفتار گیند کو حیرت اور حسرت سے دیکھتے۔ بار بار اس پر اپنا دایاں کف افسوس ملتے ، پھر بھدر بھدر دوڑتے اور جب اور جہاں سانس بھر جاتی، وہیں اور اسی لمحے ہاتھ سے گیند پھینک دیتے۔
"منہ پھیر کر ادھر کو، ادھر کو بڑھا کے ہاتھ"
ابتدا میں تو مخالف ٹیم ان کی بولنگ کے معیار سے نہایت مطمئن و محظوظ ہوئی لیکن جب اس کے پہلے ہی کھلاڑی نے پندرہ منٹ میں تیس رن بنا ڈالے تو کپتان نے اصرار کیا کہ ہمارے دوسرے بیٹس مین رہے جاتے ہیں۔ ان کو بھی موقع ملنا چاہیے اس لئے آپ اپنا بولر بدلئے۔
مرزا بولنگ چھوڑ کر پویلین میں آ گئے۔ مارے خوشی کے کانوں تک باچھیں کھلی پڑ رہی تھیں۔ جب وہ اپنی جگہ پر واپس آگئیں تو منہ ہمارے کان سے بھڑا کر بولے۔
"کہو ، پسند آئی؟"
"کون۔۔۔۔۔ کدھر ؟ " ہم نے پوچھا۔
ہمارا ہاتھ جھٹک کر بولے۔ " نرے گاؤدی ہو تم بھی۔۔۔۔۔۔ میں کرکٹ کی اسپرٹ کی بات کر رہا ہوں۔"
(مشتاق احمد یوسفی)

Wednesday, November 11, 2009

بارے کچھ جامعہ کے

شروع کے دنوں میں ہی ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جامعہ میں داخلہ لینا اتنا مشکل نہیں جتنا اس میں خیرو عافیت کے ساتھ داخل ہونا۔ ۔ ۔ علم کے نئے نویلے پرستاروں کے ساتھ یہاں وہی سلوک کیا جاتا ہے جس کا سامنا عموماً نوآموز سخن وروں کو مشاعروں میں ہوتا ہے۔ یوں تو ہم نے شاعرانہ مبالغے کی رعایت سے ہمیشہ ہی اپنے آپ کو شیر جانا ہے لیکن جامعہ میں آ کر پہلی بار ادراک ہوا کہ جنگل کا بادشاہ شیر جب شہر آتا ہے تو کیونکر معصوم شوہر کی طرح بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ یہ عقدہ بھی ہم پر یہیں کھلا کہ جامعہ میں داخلہ لینے اور داخل ہونے کے لئے آپ کو بی اے کا ڈگری ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ماہر استاد موسیقی سے ریاض لینا بھی اشد ضروری ہے ۔ اگر آپ کو شعرو شاعری سے نیاز ہے تو ٹھیک ، ورنہ کسی قادر الکلام شاعر کا تلمذ بھی شرط ٹھہری۔ ہماری بدقسمتی کہ اپنی نفاست طبع کے باعث (جسے باذوق حضرات نے ہماری کور علمی جانا) ہم مندرجہ بالا فنون کے اظہار میں اپنے میزبانوں کی توقعات کے برعکس نکلے۔ گلا ہم نے دست قدرت سے ایسا پایا ہے کہ اگر کسی تقریب میں بہ امر مجبوری گانا ہی پڑا تو سننے والوں کو دیر انتظامیہ سے "گلہ" رہا۔ بارہا تماشا بھی دیکھا کہ سامعین اس گانے کے ماخذ کو گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، کچھ عناد پرست تو ہاتھوں کے گستاخ اشاروں سے اسے دبانے کا عملی مظاہرہ بھی کر ڈالتے ہیں۔ ایک دفعہ تو احباب ہمیں یہ کہہ کر "ماہر ناک، کان اور گلا" کے پاس لے گئے کہ چائینز کھانوں کی چاہ میں کوئی بے سرا مینڈک کھا بیٹھے ہیں جو وقت بے وقت ٹراتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ اب ذرا شاعری کی سنئیے ۔ شعر یاد کرنے کے لئے جس غیر معمولی حافظہ کی ضرورت ہے، اس کا ہمارے ہاں ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ پھر شاعر نظر آنے کے لئے جن جملہ لوازمات کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے، وہ ہم میں سرے سے ناپید ہیں کہ نہ تو ہمارے بال ہی غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر وطن عزیز میں موتراشوں کی کم یابی پر تشویش ہو، نہ کہیں سے کوئی ایسا ثبوت ملتا ہے کہ ہم اپنے سکے چھپانے کے لئے مٹی کے گولگ کی بجائے اپنے سر کی درمیانی "پناہ گاہ" سے استفادہ کرتے ہیں۔ صابن کے خرچ میں بھی ہمیں کبھی اسراف جیسے گناہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ہمارے منہ اور بالوں کی سرحدوں میں گہرے مراسم ہیں اور ہمیں شاعروں کی طرح فاضل رقبہ سیراب نہیں کرنا پڑتا۔ لباس کے معاملے میں اگرچہ ہم خاص اہتمام کے عادی نہیں پھر بھی کوشش کے باوجود بے ڈھنگے معلوم نہیں ہوتے اور یہ شاعرانہ حلیہ سے اختلاف کی صورت ہے ۔ شاعر رکھنے کے لئے جس مخصوص ڈیل ڈول کی ضرورت ہوتی ہے ، بد قسمتی سے ہم اس سے بھی محروم ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محض شاعروں کی وجہ سے ہمیں شاعری سے کبھی بھی رغبت نہیں رہی۔ فنون لطیفہ کی اس "بے قدری" کی بنا پر جو سانحات ہم پر گزرے، وہ تو ایک الگ داستان ہے البتہ یہ جان کر خون سیروں بڑھ گیا کہ ابھی کچھ پرستاران ادب جہاں میں باقی ہیں جو فنون لطیفہ کے سچے اور کھرے قدردان ہیں۔
ادب لطیفہ کی صحیح‌قدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو جامعہ سے بہتر وسائل کہیں‌نہ پائیں‌گے۔ وہ حضرات جنہیں فن موسیقی اور شعرو ادب کا ذوق نہیں، ان کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ کسی “اکھاڑے“ سے استفادہ کریں‌کیونکہ جامعہ کے سینئر طالب علم نئے آنے والوں‌کی صحت کا خیال رکھنا اپنا فرض‌منصبی سمجھتے ہیں۔ ہمیں‌ادھر آکر ہی معلوم ہوا کہ ڈنٹر پیلنے اور ڈنڈ لگانے میں‌کیافرق ہے۔ مگدر گھمانا تو ہمارے “دائیں“‌ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ مسلسل دوڑنے سے ہمیں‌ان طالب علموں‌کی اعلی فہمی کا احساس ہوا جو اچھا خاصا پرسکون انداز میں‌پڑھنے کی بجائے کلاس روم سے دوڑنے کو ترجیح‌دیتے ہیں۔ وہ طالب علم جو اسمبلی کے دوران پیٹ درد کا بہانہ بنا کر یا بستوں‌میں‌دفن لنچ بکسوں کی “حفاظت“‌کے خیال سے کلاس روم میں‌بیٹھے رہتے ہیں، انہیں‌شدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ نو آموز طالبان جامعہ کو پی ٹی کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنا از حد ضروری ہے ۔ یہاں‌بھی ہماری ان مشقوں‌نے ساتھ دیا جو ہم وقت پر سکول پہنچنے کی بنا پر کیا کرتے تھے۔ قومی ترانہ اور “دعا“‌اگرچہ ہمیں فر فر یاد تھے لیکن گلے کے دائمی زکام میں وہ کسی اور ہی زبان کی تخلیق معلوم ہوتے تھے۔ ۔ ۔۔ پینٹ کے نیچے چڈی پہننی ہمیں‌کبھی بھی پسند نہیں‌رہی لیکن جامعہ میں‌ آ کر احساس ہوا کہ چڈی کے اوپر نیکر بھی پہننی چاہیے۔ ایک اضافی صفت جو نئے آنے والوں میں‌کوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہیے، وہ فن نقالی ہے۔ آپ کم از کم ایسی آواز ضرور نکال سکتے ہیں کہ متعلقہ جانور اسے سن کر ایک دفعہ ضرور متوجہ ہو یا کم از کم آپ کو اس کے سامنے شرمندگی کا احساس نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں‌بھی اس کی افادیت کا اس وقت قائل ہونا پڑا جب پہلی بار ہمیں‌معلوم ہوا کہ طوطا “میاں‌مٹھو“‌کے ساتھ ساتھ “ٹیں‌ٹیں“‌بھی کرتا ہے، اس سے پہلے ہم یہ بھی نہیں‌جانتے تھے کہ مرغا تو “ککڑوں‌کڑوں“‌کرتا ہے تو پھر مرغی کیا کرتی ہے؟۔۔۔۔ اس وقت تو ہمیں‌سخت حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی جب بکرے کی آواز نکالنے پر کتے کے فراق میں‌مبتلا ایک کتیا دوڑی چلی آئی، ایسے میں‌ ہمیں‌کتیا سے زیادہ اپنے گلے پر غصہ آیا۔
(ذیشان تبسم)

Thursday, November 5, 2009

مزاحیہ کلام

رات اک لخت ِ جگر ٹیچر کے گھر پیدا ہوا
واں بجائے شادمانی، شور و شر پیدا ہوا

ساتھ برخوردار کے روتا تھا اس کا باپ بھی
اور کہتا تھا کہ کیوں اے بے خبر پیدا ہوا

پیدا ہونا ہے بجائے خود حماقت کی دلیل
اور اس پہ طرہ یہ کہ تُو ٹیچر کے گھر پیدا ہوا

میں مخالف، ماں اور حکومت بھی خلاف
دشمن ِ منصوبہ بندی کیوں مگر پیدا ہوا

میں تو پیدا وار ہوں سستے زمانے کی مگر
تو بتا اس دور میں کیا سوچ کر پیدا ہوا

اس دفعہ بچہ سمجھ کے چھوڑ دیتے ہیں تمھیں
مار ڈالوں گا اگر بار ِ دگر پیدا ہوا

Tuesday, November 3, 2009

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔"

وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔

اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟"
جواب آیا۔ "ہوں۔"
میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟"
کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟"
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔"
کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔"
میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة"۔

دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔

اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)
میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ "اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔"

آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔

بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۱۵۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!"
انہوں پتھر کھینچ مارا "یس!"
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔"
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟"
چپ۔
"لالہ جی!"
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔"
"ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔"
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔

اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔"
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟"
میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔"
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈمارننگ" کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔

یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟"
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔
بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔"
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔"
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔

نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں
(پطرس بخاری)

Sunday, November 1, 2009

ایف سولہ میں‌سرمے کی سیل

ایف سولہ کے ہنگامے اپنے عروج پر تھے کہ اتنے میں ایک پتلا پتنگ، طویل القامت ، کالا سیاہ بندہ ہاتھوں میں کپڑے کی بنی ہوئی ایک بوسیدہ اور میلی کچیلی سی پوٹلی اٹھائے وارد ہوا۔ اس نے پوٹلی دونوں ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ وہ یوں ہراساں اور حواس باختہ دکھائی دے رہا تھا جسیے ابھی ابھی کوئی بنک لوٹ کر بھاگا ہو۔ اس نے آتے ہی ایک زوردار سلام کیا۔
"ماؤں ، بہنو، بھائیو اور بزرگو ! السلام علیکم۔" آواز بہت کراری تھی۔ "سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ اس بندہ ناچیز کا نام جمعہ خان لہولہان ہے۔ میرا غریب خانہ موضع بکھرانی میں ہے۔ میں تقریباً بیس سالوں سے بسوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہوں۔ مجھے ایسا ویسا مت سمجھنا، بہت نامی گرامی ہوں۔ پاکستان کا بچہ بچہ میرے کرتوت (کارنامے) جانتا ہے۔" پھر اس نے اپنی پوٹلی کا ازار بند ڈھیلا کیا، اس میں سے چند چھوٹی چھوٹی بوتلیں نکالیں اور پھر گویا ہوا۔ "عزیزان من ! آنکھ اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اکھ (آنکھ) ہے، تو لکھ (لاکھ) ہے، اکھ نہیں تو ککھ نہیں۔ جناب ! میں نے آپ کی پیاری پیاری آنکھوں کے لئے ایک نایاب سرمہ تیار کیا ہے۔ میں اس کا نسخہ عرض کئے دیتا ہوں، پڑھے لکھے لوگ اسے نوٹ کر سکتے ہیں۔ نسخہ یوں ہے کہ سمندری جھاگ ، گندھک، پھٹکڑی، نمک، کالی مرچ، سرخ مرچ، نیلا تھوتھا، گوند گتیرا، نیم کے پتے، کوئلہ اور کالے بکرے کی مینگنیاں۔ ان تمام اشیاء کو ہم وزن ملا کر ہاون دستے میں کوٹ کر ململ کے کپڑے سے چھان لیں۔ اس طرح سے تیار ہونے والے سفوف کو آک کے دودھ میں گوندھ لیں۔ پھر اس کا پیڑا بنا کر ایک کوزے میں ڈال کر ، ہوا بند کرکے کسی کوڑے کے ڈھیر میں دبا دیں۔ چالیس دنوں کے بعد نکالیں، سرمہ تیار ہو گا۔ آپ نسخہ کے مطابق سرمہ بنا سکیں تو بے شک بنائیں اور اگر کاہل اور کام چور ہیں تو ریڈی میڈ سرمہ مجھ سے لے سکتے ہیں۔ آنکھ سوجی ہوئی ہو، آئی ہوئی ہو، بہتی ہو۔ آنکھ میں کھرک ، دھند، جالا، پڑوال، ککرے، کالا موتیا یا سفید موتیا ہو۔ آپ مطالعہ کرتے وقت انتہائی قریب یا دور کرکے پڑھتے ہوں، سوئی کے ناکے میں دھاگہ ڈالنے میں دقت محسوس کرتےہوں تو ایک بار میرا تیار کردہ سرمہ ضرور آزمائیں۔ یہ سرمہ آنکھوں کے جملہ امراض کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عینک سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی، آپریشن سے بچ جائیں گے۔ آپ نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہوں گے ، افاقہ نہیں ہوا ہو گا۔ یہ سرمہ آزمایا ہوا ہے اور لوگ اسے دور دور سے منگواتے ہیں۔ آپ اس سرمے کی صرف ایک ایک سلائی اپنی آنکھوں میں پھیریں، پھر دیکھیں قدرت کے نظارے، چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں۔ ایک ایک کے چار چار دکھائی نہ دیں تو مجھے جمعہ خان نہ کہنا، ہفتہ اتوار خان کہہ لینا۔ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں ۔ بعد میں ڈاک سے منگوائیں گے توا یک شیشی کا مول دس روپے ہو گا اور ڈاک خرچ اس کے علاوہ ہو گا مگر اس وقت صرف پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ نیم کی لکڑی سے بنی ہوئی سلائی مفت ۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔" وہ شیشیاں اور سلائیاں ہاتھوں میں پکڑ کے بندے تاڑنے لگا۔ "اگر فائدہ نہ ہو تو یہی سمجھنا کہ پانچ روپے کہیں گر گئے تھے۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔"


(ناصر الرحمن ناصر)