Friday, October 16, 2009

اصلاح مطلوب ہے

ہر آدمی کا بچہ بڑا ہو کر ایک آدمی بنتا ہے اور پھر فارغ بھی ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور سوچتا ہے۔ یوں تو مجھے بھی بہت کام کرنے ہوتے ہیں مگر زیادہ کام دیکھ کر کچھ کرنے کو جی نہیں کرتا اور صرف کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں لیکن آج تو کمال ہو گیا کہ جب سوچتے سوچتے اکتا گیا اور قریب تھا کہ سوچنا چھوڑ دوں تو اچانک ایک بالکل نئی انقلابی سوچ دماغ میں پیدا ہوئی کہ کوئی بڑا کام کیا جائے۔ یہ انقلابی سوچیں بھی بیٹھے بٹھائے ہی پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ نظر دوڑائی تو نظر دوڑی مگر پیچھا کرنے کی اتنی کوشش نہ کی۔ اندازہ ہوا کہ کہ سب بڑے کام بڑے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ایک نظر ان ڈگریوں پر ڈالی جو نالائقی کے باعث حاصل نہ کر سکا۔ دماغ پر زور ڈالا، وہ بھی اثر انداز نہ ہو سکا۔ آخر سوچ اس نتیجہ پر پہنچی کہ کچھ علمی و اصلاحی کام کیا جائے اور محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا گیس پیپر تیار کیاجائے جس سے وہ طالب علم مستفید ہو سکیں جو میری طرح اکثر و بیشتر امتحانات میں بری طرح فیل ہو جاتے ہیں اور اسی باعث ان کی شادی ہونے میں کئی کئی سال کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہ ہمارا گیس پیپر پڑھ کر پرچے میں کم از کم پہلا صفحہ ہی کالا کر دیں، پہلا صفحہ کالا کرنے کے بھی نمبر ملتے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک پرچہ کا منہ کالا کرنے پر سو میں سے سات نمبر ملے تھے
خیر یونہی نمبر یاد آ گئے حالانکہ ماضی کا کیا رونا، حال کون سا تابناک ہے کہ مستقبل کی فکر کی جائے؟ ۔ ۔ ۔ علم کا دریا ہے کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سر کے اوپر سے گزر رہا ہے مگر عقل ہے کہ کام ہی نہیں کر رہی۔ کبھی سوچتا ہوں کہ دو اینٹیں کھڑی رکھ کر ان پر کھڑا ہو جاؤں مگر ڈرتا ہوں کہ پاؤں پھسل گیا تو الٹا خود ہی ڈوب جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ بنانے کا طریقہ و ترکیب سے آپ بخوبی واقف ہونگے ، اس لئے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ واقفیت نہیں رکھتے تو کسی سے پوچھ لیجئے گا اور پتہ نہ چلنے پر بجائے پریشان ہونے کے میری طرح صبر کر لیجئے گا۔ مجھے بھی محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا شوق نہیں ہے۔
(علی راز)

2 تبصرہ جات:

Anonymous said...

ارے اتنا اچحا لکحنے والے بلاگ سپاٹ پر کیا کر رہی ہے۔کنفیوز کامی

فائزہ said...

کامی یہ تحریر میری نہیں ہے۔ علی راز کی ہے۔ میرا کام تو صرف کمپوز کرنے تک کا ہے۔