Tuesday, July 7, 2009

(میرا حرف حرف شاعر (معراج یاسمین

کبھی لائبریری سے کتابیں منگوائیے ، چونکہ لائبریری پر ہر شخص کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر بندہ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کتابوں پر کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ہے ۔ بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی پر کنٹرول نہیں رہتا جبکہ بعض صفحات پر "تاریخی قلمی جنگیں "لڑی جا رہی ہوتی ہیں جو پڑھنے والے کو خاصا محضوظ کر تی ہیں ۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ہم نے لائبریری سے ایک کتاب منگوائی ، غالباً احمد فراز یا فرحت شاہ کی تھی۔ اس میں ایک شعر تھا ( اور بھی تھے ) جو ٹھیک سے یاد تو نہیں مگر الفاظ یہ تھے۔ "نرگس و شہلا بیمار" اس کے نچے ہی کسی منچلے نے لکھ دیا تھا۔ "مگر نرگس اور شہلا تو بالکل تندرست ہیں ۔ "کسی اور نے اپنی عقلمندی جتاتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ! ضروری نہیں کہ یہ تمہارے والی نرگس اور شہلا ہوں ۔ "پہلے والے نے " تمیز " کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ہو گا تمہارا باپ۔۔۔"باپ کا نام سنتے ہی دوسرا غیرت سے بلبلا اٹھا اور لکھا "اوئے ! دیکھ میرے باپ پہ مت جا ۔۔۔"پہلے والے نے بھی اپنا فرض نبھایا اور یہ الفاظ لکھے ۔ "اے اے ، زبان سنبھال کر بات کرو ۔ میں" اوئے" نہیں "اوئی " ہوں۔ اس کے بعد پہلے والے کو سانپ سونگھ گیا ، شایدوہ جان گیا تھا کہ وہ اؤئی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔کچھ کو ہر صفحے کوئی نہ کوئی شعر یا کوئی نہ کوئی بات لکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے ہی کسی صاحب نے کتاب پڑھتے پڑھتے اس پر احمد فراز کا یہ شعر لکھ دیا۔۔۔"ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازکچا تیرا مکان ہے ، کچھ تو خیال کراس شعر کو پڑھ کر کسی "مستقبل "کے شاعر کو اپنا دیوان کھولنے کا اس سے بہتر موقع نظر نہ آیا ، انہوں نے نیچے لکھ دیا۔۔۔ ؂ان لڑکیوں سے دوستی اچھی نہیں فرازبچہ تیرا جوان ہے کچھ تو خیال کراسی کتاب کے ایک دوسرے صفحے پر انہی دونوں حضرات نے اپنا ذوق و شوق یوں بیاں فرمایا ۔۔۔پہلے والا ۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےدوسرے کی رگ ظرافت بھڑکی اور اس نے شعر کو کچھ یوں رقم کیا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے "عابد ! تیری بھرجائی کدھر ہے"کسی "تیسرے "منچلے کو بھی اس "بحث " میں حصہ لینے کا شوق ہوا۔ غالباً موصوف سرائیکی اور خالص "بھاکری"تھے۔ انہوں نے قلم کا جادو کچھ یوں جگایا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ میں چھپر تے چڑھ جاواں توں لاندھا ایں کہ میں آپ آواںپچھلے دنوں شاعری کی ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کتاب تو اچھی تھی مگر اس میں جا بجا بکھرے "اہل ذوق" کے دل چسپ تبصروں نے اسے مزید دل چسپ بنا دیا تھا۔ مثلاً ایک شاعر ایک جگہ لکھتا ہے ۔۔۔۔ ؂میں ماروں گا منع کر اس کو بے بےجمالا مجھ پر تھوکیں سوٹتا ہےنیچے کسی تبصرہ نگار نے اپنی "تبصرہ نگارانی" فطرت کو سکون پہنچانے کے لئے لکھا تھا ۔"لوجی بھلا کوئی پوچھے کہ جب تم خود "جمالے"کو مار سکتے ہو تو "بے بے " کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہی کیا ہے؟ کھینچ کر جمادو، ایک تھپڑ ۔ اپنے ہاتھ کسی کو ادھار دئیے ہوئے ہیں کیا؟"لیجئے صاحب انہوں نے تو بیچارے "فریادی"کو ہی ڈانٹ کر رکھ دیا۔۔۔ آئیے ، دیکھتے ہیں کہ ایک اورحضر ت "ان "سے کیا کہہ رہے ہیں۔"ارے واہ ، بھائی صاحب ، ایک تو وہ بیچارہ ہنگامے جھگڑے میں پڑنے کی بجائے بڑوں کو بیچ میں لاکر معاملہ سلجھانا چاہتا ہے اور آپ "آنپڑیاں " ہی مارے جارہے ہیں۔۔۔ شرم تو نہیں آتی بچوں کولڑواتے ہوئے؟"خیر قارئین ! بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی ان دونوں "معزز"حضرات نے بنا دی ۔ بیچارہ شاعر تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں "ایسی" اردو بولی جاتی ہے۔ ویسے "دیہاتیوں کی اردو"سے ہمیں "کچھ "یاد آ گیا ہے کہ ایک دیہاتی کراچی کی سیر کرنے ٹرین پر جا رہا تھا کہ اس کے ساتھ والا مسافر یعنی "ہم سفر"اس کے ساتھ یوں مکالمہ کرتا ہے۔ ہم سفر: کیوں ، بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟دیہاتی: جی میں کراچی جا "رہیا"ہوں۔ہم سفر: آپ کو وہاں پر کوئی کام ہے یا رشتہ داروں سے ملنے جا رہے ہیں؟دیہاتی: بس جی "تھوڑی باڑی"سیری واسطے جا "رہیا "ہوں۔ہم سفر: (دیہاتی کی اردو پر مسکراتے ہوئے) مگر ، بھائی کراچی کے لوگ تو اردو بولتے ہیں ، کیا آپ کو اردو آتی ہے؟ (خیال رہے کہ اب تک کی گفتگو اردو اور سرائیکی میں ہو رہی تھی)دیہاتی: ہاجی، ہا۔ہم سفر: اچھا اگر کوئی آپ کے پاؤں پر چڑھ جائے تو آپ کیاکہیں گے اسے؟دیہاتی: "کینڑاں "کیا ہے جی ، بس "ایہو" کہوں گا کہ دیکھتے ہو نہ "بھا لیتے " ہو پیر تے چڑھے ویتے ہو۔

0 تبصرہ جات: