Tuesday, July 7, 2009

(پان بلائے جان (شاہد اطہر

پان کی اصل قدر وقیمت کا ہمیں اندازہ 1971ء کی جنگ کے دوران ہوا جب جنگ کی وجہ سے پان کی درآمد معطل ہوئی۔ ان گنہگار آنکھوں نے لوگوں کو امرود کے پتوں پر کتھا چونا لگا کر ذوق تسکین کرتے ہوئے دیکھا۔ جتنی گالیاں اردو لغت میں ہوں گی، اتنی بھارت کو دی جاتیں کی کس طرح اس نے امن کو پامال کر دیا، ان لوگوں کی امن سے مراد پان ہی تھی۔ ہمیں تو یہ گمان بھی ہے کہ بکریاں بھی امرود کے پتے کھا کر اپنی زبان میں گالیاں ہی دیتی ہیں۔ ہمارے حصہ کا جوپاکستان بچا ، اس میں تو پان ہوتا نہیں ہے اور ہمارا جو بازو ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے کٹ گیا، وہ پان میں خود کفیل تھا جس کے پان کا نام "بنگلہ"تھا جسے ہم نے خود ہی چبا کر تھوک دیا مگر اب عبث تھوکا ہوا چاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کی مس ورلڈ کی طرح بھارت کاپان "سانچی"بھی نمبر ون ہوتا ہے اور ان ہی کی طرح خوب ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی بھارت کا ہی پان ہے "بنارسی "جو بنارسی ساڑھی ہی کی طرح مہین ہو تا ہے جسے بھارتی ناریاں جسم کی نمائش کے لئے شوق سے پہنتی ہیں (ساڑھی کو ، پان کو نہیں)۔ امپورٹڈ پانوں میں گھٹیا پان سری لنکا کا ہوتا ہے جس کا نام "سیلون"ہے۔ یہی پان پاکستان میں آتا ہے۔ آپ اسے شوق سے کھاتے ہیں اور وہ آپ کو کھاتا ہے۔ ویسے ایک اور پان ہے "پاکستانی" جو 71ء کی جنگ کے بعد "نظریہ اشد ضرورت "کے تحت ملیر کراچی میں کاشت کیا گیا تھا تاکہ ایمرجنسی میں امرود کے پتوں کو پنواڑیوں سے بچایا جا سکے۔ اس پان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے بعد آپ "سیلون"بھی بخوشی کھا لیتے ہیں۔ہماری جاں فشاں تحقیق کے مطابق پان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی ہے۔ دنیا میں قدم رنجا فرماتے ہی باوا آدم ؑ اور اماں جان حواؑ نے اپنے جسموں کو پان کے پتوں سے ہی ڈھانپا ہو گا۔ کیونکہ جنت بدر کرکے انہیں جس مقام پر ڈراپ کیا گیا تھا، وہاں پان ہی پان تھے کیونکہ ان کو یمن کے قریب جس جزیرہ میں دنیا داری کے لئے آزاد چھوڑا گیا وہ سلیون (موجودہ نام سری لنکا ) ہی تھا جو طوفان نوح میں پھسلتا ہوا موجودہ مقام پر اٹک گیا ۔ اسی وجہ سے سری لنکا میں آج بھی بابا آدم کے پاؤں کا نشان محفوظ ہے جسے ہزاروں ٹورسٹ روزانہ دیکھتے ہیں اور ہمارے خیالات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کی تہذیب کا مطالعہ کرنے سے جہاں ان کے بد تہذیب ہونے کے نشانات ملتے ہیں وہاں ان کے پان کھانے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ ان کی دوکانوں کا سائز پان کے کھوکھے کے جتنا ہوتا تھا۔ پھر ان کے ظروف میں پیک دان نمایاں ہے جسے انگریز اپنی کم علمی کی وجہ سے آلات جراحی سمجھتے رہے ہیں۔ ٹیکسلا میں ایک مقام "سری کپ"ہے ، وہاں کا چونچال راجہ شام کو ایک کھیل کھیلا کرتا تھا جو کہ موجودہ "ڈرافٹ"جیسا تھا اور ہارنے والے کا سرکپ (کاٹ) دیاجاتاتھا۔ وہ کم بخت مد مقابل کو مکس تمباکو کا پان کھلا دیا کرتا تھا اور خود سادہ الائچی کا پان کھالیا کرتا تھا، مدمقابل کو چکر آنے شروع ہو جاتے تھے لہٰذا وہ گیم اور گردن دونوں ہی ہار جاتا۔ ایک مرتبہ ایک ہوشیار کھلاڑی نے پان بدل دئیے ، راجہ بوجہ چکر گیم جاری نہ رکھ سکا اور پہاڑی سے اترتے ہوئے ایسا پھسلا کہ پھر نہیں رکا ، دنیا سے ہی کوچ کر گیا۔ مرنے کے بعد ظالم کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور منہ میں پان تھا۔زمانہ قبل از تاریخ میں چونکہ پان کا استعمال کپڑوں کی جگہ ہوتا تھا لہٰذا تول کے مول نہیں ملتا تھا بلکہ طول کے مول ملتا تھا اتنے میٹر پان دے دو، تنوع پسند انسان اس وقت کلر میچنگ کا خیال رکھتا تھا۔ ہلکا زرد کچا پان اوپری حصہ جبکہ گہرا سبز پان نیچے کے حصوں کو ڈھانپنے کے کام آتا تھا۔ قیاس ہے کہ مسز قابیل جیسی فیشنی لڑکیاں اس وقت بھی مکس اینڈ میچ کرکے پان لپیٹا کرتی تھی ، صرف ایک قباحت تھی کہ اکثر پانی کا چھڑکاؤ کرنا پڑتا تھا تاکہ کپڑے تازہ رہیں۔انسانی ذہن کے ارتقاء سے کپڑے وجود میں آگئے لہٰذا پان کا رول بھی تبدیل ہو گیا۔ ہندوستان میں پان بکثرت پایا جاتا تھا اور دانشور نام کو بھی نہیں لہٰذا "بدھ "نے انہیں "مت"دینے کی ٹھانی۔ یوں بدھ مت پروان چڑھی ، جس نے کسی پیڑ کو بھی تکلیف نہ دینے کا درس دیا، بھلا پھر پان کو بیل سے کون نوچتا؟......یہ نوچ کھسوٹ اور پان کا استحصال تو مغلوں کے آنے پر شروع ہو اجنہیں ایک ہی وقت میں بہت ساری بیگمات رکھنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کئی بیگمات ٹھیک سے ٹوتھ پیسٹ بھی نہ کرتی تھیں لہٰذا شاہی طبیب کو حکم ہو اکہ کو ئی ایسی چیز ایجاد کرو جو منہ کی بدبو کو خوشبو میں تبدیل کر دے۔ یوں پان کی شامت اعمال آئی اور اس کا استعمال شروع ہوا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ پان پر ریسرچ ہوتی رہی، فارمولے بدلتے رہے ، تراکیب بدلیں مگر نہ بدلا تو پان نہ بدلا۔پان میں تخلیقی "بیکٹیریا "بھی ہوتا ہے لہٰذا فنون لطیفہ میں اسے بہت سراہا گیا ، نواب جمن مرزا کے توحرم میں کوئی خاتون داخل ہی نہیں ہو سکتی تھی جس کے منہ پر پان کی لالی نہ سجی ہو......چچا غالب بھی پان کے بغیر شاعری نہ فرماتے تھے لیکن پان وہ صرف دارو کی بو ختم کرنے کے لئے کھایا کرتے تھے ، یوں خوب پان کھایا کرتے اور خوب تر شاعری کرتے .......حالی کی بدحالی میں پان کا بڑا ہاتھ ہے۔ ذوق بدذوق ہوتے اگر پان نہ کھاتے اور داغ نے تو اپنا تخلص پان کا داغ لگ جانے پر داغ رکھ لیا تھا ۔ پھر پان کو فنا ہوتا دیکھ کر فانی بنے، حشر پان کا حشر دیکھ کر اس حشر کو پہنچے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کو ملک بدری میں بادشاہت چھن جانے سے زیادہ قلق اس بات کا تھا کہ برما میں پان نہیں ملتا تھا۔ پان نے ان شعراء کے کلام کو کوٹھوں میں زندہ رکھا۔ کلام سننے والوں کی تواضع پان سے ہی ہوتی تھی البتہ اختتام پر جیب میں اتنے پیسے بھی نہ رہتے کہ ایک گلوری پان کھا سکیں لیکن جیسے ہی ان شرفاء کی جیب پھر سے بھری ہوتی تو کوٹھوں پر پان کھانے کے لئے جا پہنچتے۔

(پتنگ بازی (ڈاکٹر یونس بٹ

ہم پتنگ بازی کو کھیل مانتے ہیں کیونکہ بقول یوسفی جہاں کھیل میں دماغ پر زور پڑا تو وہ کھیل نہیں رہتا ٗ کام بن جاتا ہے"پتنگ بازی میں جو بوجھ دماغ پر پڑتاہے ۔ اس کھیل میں بندے کوکوٹھے پر جانا پڑتا ہے اور ہم کوٹھے پر آنے جانے کو اچھا نہیں سمجھتے .....ہم نے ایک پتنگ باز سے پوچھا ۔"پیچ لڑانے سے فائدہ.....؟"کہا۔"کلائی مضبوط ہوتی ہے۔"پوچھا۔ "مضبوط کلائی کا فائدہ......؟"کہا ۔ "پیچ لڑانے میں آسانی ہوتی ہے۔"پیچ سیاست کی طرح پر پیچ ہوتے ہیں مگر پتنگ بازی اور سیاست میں یہ فرق ہے کہ ہمارے ہاں اول الذکر کے لئے ڈور اور آخر الذکر کے لئے بیک ڈور کی ضرورت پڑتی ہے ۔ امریکہ اور روس نے خلائی جہازوں کے ذریعے آسمانوں پر پہنچنے کی کوشش کی جبکہ ہم نے پتنگ بازی میں اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہر سال بذریعہ "پتنگ"کئی لوگ خدا کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔

(میرا حرف حرف شاعر (معراج یاسمین

کبھی لائبریری سے کتابیں منگوائیے ، چونکہ لائبریری پر ہر شخص کا حق ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر بندہ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق کتابوں پر کچھ نہ کچھ لکھ دیتا ہے ۔ بعض جملے ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی پر کنٹرول نہیں رہتا جبکہ بعض صفحات پر "تاریخی قلمی جنگیں "لڑی جا رہی ہوتی ہیں جو پڑھنے والے کو خاصا محضوظ کر تی ہیں ۔ ابھی پچھلے ہی دنوں ہم نے لائبریری سے ایک کتاب منگوائی ، غالباً احمد فراز یا فرحت شاہ کی تھی۔ اس میں ایک شعر تھا ( اور بھی تھے ) جو ٹھیک سے یاد تو نہیں مگر الفاظ یہ تھے۔ "نرگس و شہلا بیمار" اس کے نچے ہی کسی منچلے نے لکھ دیا تھا۔ "مگر نرگس اور شہلا تو بالکل تندرست ہیں ۔ "کسی اور نے اپنی عقلمندی جتاتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ! ضروری نہیں کہ یہ تمہارے والی نرگس اور شہلا ہوں ۔ "پہلے والے نے " تمیز " کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا تھا۔ "بے وقوف ہو گا تمہارا باپ۔۔۔"باپ کا نام سنتے ہی دوسرا غیرت سے بلبلا اٹھا اور لکھا "اوئے ! دیکھ میرے باپ پہ مت جا ۔۔۔"پہلے والے نے بھی اپنا فرض نبھایا اور یہ الفاظ لکھے ۔ "اے اے ، زبان سنبھال کر بات کرو ۔ میں" اوئے" نہیں "اوئی " ہوں۔ اس کے بعد پہلے والے کو سانپ سونگھ گیا ، شایدوہ جان گیا تھا کہ وہ اؤئی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔کچھ کو ہر صفحے کوئی نہ کوئی شعر یا کوئی نہ کوئی بات لکھنے کی عادت ہوتی ہے۔ ایسے ہی کسی صاحب نے کتاب پڑھتے پڑھتے اس پر احمد فراز کا یہ شعر لکھ دیا۔۔۔"ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازکچا تیرا مکان ہے ، کچھ تو خیال کراس شعر کو پڑھ کر کسی "مستقبل "کے شاعر کو اپنا دیوان کھولنے کا اس سے بہتر موقع نظر نہ آیا ، انہوں نے نیچے لکھ دیا۔۔۔ ؂ان لڑکیوں سے دوستی اچھی نہیں فرازبچہ تیرا جوان ہے کچھ تو خیال کراسی کتاب کے ایک دوسرے صفحے پر انہی دونوں حضرات نے اپنا ذوق و شوق یوں بیاں فرمایا ۔۔۔پہلے والا ۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےدوسرے کی رگ ظرافت بھڑکی اور اس نے شعر کو کچھ یوں رقم کیا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے "عابد ! تیری بھرجائی کدھر ہے"کسی "تیسرے "منچلے کو بھی اس "بحث " میں حصہ لینے کا شوق ہوا۔ غالباً موصوف سرائیکی اور خالص "بھاکری"تھے۔ انہوں نے قلم کا جادو کچھ یوں جگایا۔۔۔ ؂خودی کو کر بلند اتنا کہ میں چھپر تے چڑھ جاواں توں لاندھا ایں کہ میں آپ آواںپچھلے دنوں شاعری کی ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ کتاب تو اچھی تھی مگر اس میں جا بجا بکھرے "اہل ذوق" کے دل چسپ تبصروں نے اسے مزید دل چسپ بنا دیا تھا۔ مثلاً ایک شاعر ایک جگہ لکھتا ہے ۔۔۔۔ ؂میں ماروں گا منع کر اس کو بے بےجمالا مجھ پر تھوکیں سوٹتا ہےنیچے کسی تبصرہ نگار نے اپنی "تبصرہ نگارانی" فطرت کو سکون پہنچانے کے لئے لکھا تھا ۔"لوجی بھلا کوئی پوچھے کہ جب تم خود "جمالے"کو مار سکتے ہو تو "بے بے " کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہی کیا ہے؟ کھینچ کر جمادو، ایک تھپڑ ۔ اپنے ہاتھ کسی کو ادھار دئیے ہوئے ہیں کیا؟"لیجئے صاحب انہوں نے تو بیچارے "فریادی"کو ہی ڈانٹ کر رکھ دیا۔۔۔ آئیے ، دیکھتے ہیں کہ ایک اورحضر ت "ان "سے کیا کہہ رہے ہیں۔"ارے واہ ، بھائی صاحب ، ایک تو وہ بیچارہ ہنگامے جھگڑے میں پڑنے کی بجائے بڑوں کو بیچ میں لاکر معاملہ سلجھانا چاہتا ہے اور آپ "آنپڑیاں " ہی مارے جارہے ہیں۔۔۔ شرم تو نہیں آتی بچوں کولڑواتے ہوئے؟"خیر قارئین ! بات اتنی بڑی نہیں تھی جتنی ان دونوں "معزز"حضرات نے بنا دی ۔ بیچارہ شاعر تو صرف اتنا کہنا چاہتا تھا کہ پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں "ایسی" اردو بولی جاتی ہے۔ ویسے "دیہاتیوں کی اردو"سے ہمیں "کچھ "یاد آ گیا ہے کہ ایک دیہاتی کراچی کی سیر کرنے ٹرین پر جا رہا تھا کہ اس کے ساتھ والا مسافر یعنی "ہم سفر"اس کے ساتھ یوں مکالمہ کرتا ہے۔ ہم سفر: کیوں ، بھائی! آپ کہاں جا رہے ہیں؟دیہاتی: جی میں کراچی جا "رہیا"ہوں۔ہم سفر: آپ کو وہاں پر کوئی کام ہے یا رشتہ داروں سے ملنے جا رہے ہیں؟دیہاتی: بس جی "تھوڑی باڑی"سیری واسطے جا "رہیا "ہوں۔ہم سفر: (دیہاتی کی اردو پر مسکراتے ہوئے) مگر ، بھائی کراچی کے لوگ تو اردو بولتے ہیں ، کیا آپ کو اردو آتی ہے؟ (خیال رہے کہ اب تک کی گفتگو اردو اور سرائیکی میں ہو رہی تھی)دیہاتی: ہاجی، ہا۔ہم سفر: اچھا اگر کوئی آپ کے پاؤں پر چڑھ جائے تو آپ کیاکہیں گے اسے؟دیہاتی: "کینڑاں "کیا ہے جی ، بس "ایہو" کہوں گا کہ دیکھتے ہو نہ "بھا لیتے " ہو پیر تے چڑھے ویتے ہو۔

کل جوان چھٹی کرے گا

فوج کے بارے میں عام تاثر ہے کہ اگرچہ اس سے متعلق افراد صرف زمانہ جنگ میں ہی مصروف عمل نظر آتے ہیں اور اس دوران انہیں جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑتاہے مگر زمانہ امن میں لمبی تان کر سوتے ہیں۔ عموماً سات ، ساڑھے سات صبح ڈیوٹی پر آمد ، معمول کی پریڈ اور پھر دن بھر گپیں ہانکنا۔ ایک، ڈیڑھ بجے سہ پہر قطار بندی FALL IN پھر چھٹی اور پھر عیش ہی عیش .......یہ مروضہ افسران کی حد تک تو شاید درست ہو مگر عام سپاہیوں یعنی"جوانوں "(جن میں ساٹھ ساٹھ برس کے بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں) کو بعض اوقات تعطیل کے دن بھی عام دنوں سے زیادہ کام پڑجاتاہے جس کا کچھ احوال حسب ذیل واقعہ سے سمجھا جا سکتاہے۔فوجی روایات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آغاز ہفتہ کے پہلے دن علی الصبح ڈیوٹی شروع ہونے سے قبل یا اختتام ہفتہ کو ڈیوٹی ختم ہونے سے پہلے یونٹ کا کوئی افسر سپاہیوں سے خطاب کرتا اور انہیں کچھ نئی ہدایات دیتا ہے۔ ایسے ہی ایک دن ہفتہ کے آخری دن ، یعنی Weekendپر یونٹ افسر نے چھٹی کے وقت جوانوں کو جمع کرکے کچھ ہدایات دیں، نصیحتیں کیں اور پھر بولا۔"کوئی شک.....کوئی سوال؟"ایک دبلا پتلا سا سپاہی ہاتھ اٹھاتا ہے۔"اوئے کھڑے ہو کر پوچھو.....کیا سوال ہے۔"افسر کڑک کر کہتا ہے۔"سر جی مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔"لرزتے ہوئے ہونٹوں سے اس نے کہا۔اوئے تو بیٹھ جا.....اور کسی کو کوئی شک ، کوئی سوال؟"افسر نے گرج کر کہا اور پھر سب کی ماں مر گئی۔ اب اجتماع میں ہر طرف سکون ہی سکون، ٹھنڈک ہی ٹھنڈک ہے۔ پھر پہلے کی نسبت کچھ نرم لہجہ میں افسر کہتاہے۔"ہاں تو جوانوں کل اتوار ہے.....جوان چھٹی کرے گا۔"یکدم فوجیوں کے چہروں سے خوشی پھوٹنے لگتی ہے ۔ وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے ہیں ، فضا میں مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ پیدا ہوتی ہے۔ افسر کی تیوری پر بل پڑ جاتے ہیں، وہ انہیں ڈانٹتاہے۔"اوئے شٹ اپ ! پوری بات سنو....."اور سپاہیوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔ وہ گلا صاف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ "ہاں ، تو میں کہہ رہا تھا کہ کل جوان چھٹی کرے گامگر تھوڑا ساکام بھی ہے۔ صبح چھ بجے کرنل صاحب کے بنگلے پر پہنچنا ہے۔ "سپاہیوں کے چہرے اتر جاتے ہیں اور وہ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگتے ہیں۔ مگر افسر اسی لاپرواہی اوربے نیازی کے ساتھ کہہ رہا ہے۔ "ہاں تو میں کہہ رہا تھا....کتنے بجے .....؟""چھ بجے ، سر !"غمزدہ دل اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ سب ایک ساتھ کہتے ہیں۔"ٹھیک ".....افسر اطمینان کیساتھ کہتا ہے۔ "صبح چھ بجے کرنل صاحب کے گھر پہنچ کر ان کا لان ٹھیک کرنا ہے۔ بالکل ٹھیک ، فٹ فاٹ .....بس یہی کوئی چھ سات گھنٹے کا کام ہے ۔"سپاہی کچھ سکون کا سانس لیتے ہیں تو ان پر دوسر احملہ ہوتاہے۔ "ایک بجے جوان لنچ کرے گا، ایک گھنٹے کا فرصت۔ پھر دو بجے یونٹ آفس کو ری سیٹ کرنا ہے، بس تین چار گھنٹہ لگے گا.....سمجھا کچھ؟""جی سر ! سمجھ گئے....."بیک آواز سب نے کہا۔"ٹھیک......کوئی شک ، کوئی سوال ؟"افسر زہر خند مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا ۔ لیکن اس با ر نہ کوئی شک ، نہ سوال۔ مگر افسر دلوں کا بھید نہیں جانتا، وہ کہہ رہا ہے۔"ناؤ ڈسمس ..... "اور سپاہی بوجھل قدموں سے کل کی چھٹی کو گالیاں بکتے ہوئے رخصت ہوجاتے ہیں۔

Thursday, July 2, 2009

(کار بے کاری (جمشید انصاری


اپنے "صاحب" ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بعد ہم نے مناسب اقدامات کرنے کے بارے میں شدت کے ساتھ غورو خوض شروع کر دیا۔ ان اقدامات میں ایک موٹر خریدنے کی تجویز بھی شامل تھی۔ چونکہ اس سے قبل ہمار ا اس قسم کی کسی چیز سے کوئی واسطہ نہ پڑا تھا اس لئے ہم کو کافی سوچ بچا ر کی ضرورت پڑی۔ یہ چاہت اس حد تک بڑھی کہ اب ہم کو ٹماٹر کی چٹنی ، موٹر کی چٹنی لگتی اور دیکھتے ہی پہئے کا تصور ہماری نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگتا۔ اس موقعہ پرہم کو اپنی پرانی سائیکل پر شدت سے غصہ آنے لگتا۔ خاندان کی معقول روایتوں سے ظاہر ہوتا تھاکہ ہمارے دادا جان کے ماموں زاد بہن کے سالے نے یہ سائیکل خریدی تھی جو تحفہ کی شکل میں منتقل ہوتی ہوئی اب ہماری بیٹھک کی زینت بنی ہوئی تھی۔ایک دن ہمیں خیال آیاکہ موٹر کمپنیوں سے رجوع کرناچاہئے۔ چنانچہ کئی موٹر کمپنیوں کے چکر کاٹے مگر ان کی صرف قیمتیں ہی سنکراختلاج ہونے لگا۔ اس کے بعد گیراجوں کے طواف کرنے کا منصوبہ ذہن میں آیا۔ ایک گیراج میں پہنچے ۔ ایک نہایت مستطیل قسم کے ثقیل مستری جی، ایک موٹر کے نچلے حصے میں پڑے ہتھوڑے چلا رہے تھے۔ اپنے جثہ اور ان کی توند کے ناپ کے موازنے کے بعد ہم نے خودمیں اتنی ہمت نہ پائی کہ ان سے گفتگو کر سکیں مگر شکل یہ ہوئی کہ پاؤں دغا دے گئے اور صورت حال یہ پیدا ہوگئی کہ آگے تو خیر بڑھ ہی نہیں سکتے مگر پیچھے بھی نہیں ہٹا جاتا۔کافی دیر اسی طرح کھڑے رہے کہ انہوں نے ہماری موجودگی کا احساس کر لیا۔ چنانچہ اپنی کھوپڑی ذرا سی نکال کر ہم کو اور ہمارے مختصر اور قلیل جثے کو نہایت مضحکہ اور حیرت سے دیکھا۔ شاید سوچتے ہونگے کہ "ہیں، ایسے بھی لوگ دنیا میں موجود ہیں۔" بہرحال ہم سوائے اس کے کیا کر سکتے تھے کہ نہایت معصوم شکل بنائے کھڑ ے رہیں۔ایسے گریس ملے تیل سے بھرے ہوئے کالے کالے "پھاؤڑے"(ہم ان کو ہاتھ ماننے کو قطعی تیار نہیں) پتلون کی پشت سے ابھرے ہوئے کوہان پر رگڑ کر وہ ہم سے مخاطب ہوء ۔ "ارساد؟""جی وہ ہم کو ایک .......ہمارا مطلب ہے".......ہم خشک حلق تر کرتے ہوئے خوفزدہ ہو کر بولے۔"ہم کو ایک پرانی موٹر کی ضرورت ہے۔""ہوگی جی ، جرور ہوگی۔"وہ باہر نکلتے ہوئے بولے۔"اجی.......پھر ذرا دکھادیں ہمیں۔""آئیے اندر تشریف لائیے۔ " ہتھوڑا گھما کر انہوں نے اندر چلنے کا اشارہ کیا اور ہم بدک کر ان کے ساتھ "تشریف" لے چلے۔ کچھ دور اندر جا کر انہوں نے ہم کو ایک موٹر کے "ڈھانچے"کے پاس لاکھڑا کیا جس کو شاید وقتی ضرورت کے تحت ، بیت الخلاء کے بھی مصرف میں لے آیا جاتا تھا۔"ملاحجہ فرمائیے۔"انہوں نے قوی ہیکل اسکرو ڈرائیور ہماری کمر میں گھما کر "ارساد"فرمایا۔ہم نے بڑی حیرت سے اس لاش کو "ملاحجہ"کیامگر کافی دیر کے بنظر غائر "ملاحجے"کے بعد اس میں موٹر کے کوئی آثار نہ معلوم کر سکے۔"مگر موٹر میں تو پہئے بھی ہوتے ہیں۔"ہم ڈرتے ڈرتے بولے۔"جی ہاں پھر۔"انہوں نے ادھ جلی بیڑی جلانے کی کوشش میں ناک جلاتے ہوئے کہا۔"تو پھر اس میں کہاں ہیں؟""ازی لگ جائیں گے وہ تو۔"اپنی سرخ ناک کو سہلا کر انہوں نے غصہ سے کہا۔ حالانکہ ہم صحیح عرض کر تے ہیں کہ ان کی ناک جلانے میں ہمار اقطعی کوئی ہاتھ نہیں تھا۔"اور وہ گدیاں وغیرہ؟""ازی ان کا کیاہے، جری دیر کا تو کام ہے۔ لگادیں گے، جھٹاپٹ۔""اور دوسرے پرزے ۔ ایکسیلیٹر ، دروازے .....باڈی.....رنگ و روغن"....."وہ بھی۔"دانت نکالتے ہوئے ارشاد ہوا۔ازی لگ جائیں گے نا، تنگ کیوں کررہے ہو۔ لینا بھی ہے کہ خالی پیلی مخول بازی کررہے ہو۔ اگر ایسے تکراری گاہک آنے لگیں تو ہولی دوکانداری، مہربانی سے آپ تشریف لے جائیں۔"اور ہم ان کی ہدایت کے مطابق اپنے گھر تشریف لے آئے۔ دوسرے دن ہم نے ایک اور گیراج پر حاضری دی۔ایک مولوی باریش مولوی ابوالحاج قسم کی ایک کرسی پر تشریف فرما تھے۔ جھپٹ کر ہم نے سلام کیا۔ خوش ہو کر بولے۔" استغفراللہ۔"ہم حیران ہو کر بولے۔"جی۔"کچھ شرمندگی کے لہجے میں بولے۔ "لاحول ولا، میرا مقصد یہ تھا کہ وعلیکم السلام .......استغفراللہ!" پھر ذرا خفا ہو کر بولے۔"فرمائیے کیا چاہیے۔"ہم نے خوش ہو کر کہا۔"موٹر"....."استغفراللہ۔"وہ برابر سے گزرتی ہوئی ایک خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہوئے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے۔ "جی۔"ہم گھبرا گئے۔"میں نے کہا استغفراللہ ۔ تو گویا موٹر؟ تو مل جائے گی آپ کو موٹر۔""اچھا ۔"ہم مسرت سے بھرپور لہجے میں بولے۔"جی ہاں.....استغفر.......بس ایک کمی ہے گویا کہ ورنہ بالکل نئی ہے۔ درجہ اول ہے استغفراللہ۔""ہیں ، کس چیز کی کمی ہے؟ "ہم گویا متوحش ہو کر بولے۔"فقط ذرا......فقط ذرا استغفراللہ نہیں ہے۔""قیں......ہیں.......کس چیز کی کمی ہے؟""ارے لاحول ولا۔ میرا مطلب تھا کہ فقط ذرا انجن نہیں ہے۔ وہ کہیں اور سے خریدنا پڑے گا۔ جناب والاکو ........استغفراللہ۔"مولانا شرمندہ ہو کر سر کھجاتے ہوئے بولے۔"آپ کی .......آپ کی کھوپڑی میں جو بھس بھرا ہے نا، یہ دیسی ہے یا ولایتی یا مکس مال ہے۔ "ہم نے جل کر کہا۔آگے کی اطلاع یہ ہے کہ اس خوبصورت سوال نے کچھ ایسا اثر کیا کہ تلملا کر بولے۔"کیا مطلب ؟""مطلب واضح ہے۔ "ہم نے جلانے والے انداز میں کہا۔ جواباً سڑ کر مولانا صاحب نے نزدیک پڑا ہوا ڈھیلا اٹھا کر ہمارے سر کو تاک کے پھینکا ۔ اب ہم استاد آدمی نیچے سرک لئے۔ نتیجتاً پتھر چلا، ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اور پوری شدت کے ساتھ جا کر لگا سامنے خان صاحب کو۔خان صاحب تازہ تازہ افغانستان سے آئے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ اپنے گھٹے ہوئے سر کی اس توہین کو برداشت نہ کر سکے اور جواب میں تازہ تازہ استنجا کا ڈھیلا رسید کیاجس کو مولانا صاحب نے اپنی ناک پر وصول کیا۔ قارورہ کی یہ بدتمیزی ان سے برداشت نہ ہوئی اور انہوں نے ایک پیارا سا لفظ خان صاحب کے متعلق عرض کیا۔ اب ہوا تو کچھ نہیں سوائے اس کے کہ کچھ گالم گلوچ کے بعد ہاتھا پائی کی ٹھہری۔ جس کے نتیجے میں مولانا صاحب کی دھول جھاڑ کر رکھ دی گئی۔ سر پر دو چار ٹیلے ابھر آئے، ایک دانت نے بغاوت کر دی اور بس .......اب یہ تو ظاہر ہے کہ ہم وہاں سے بھاگ ہی لئے ہونگے۔اب جو ہم نے اس واردات کو اپنے دوستوں سے دہرایا تو ایک صاحب بگڑ کر بولے۔"اماں یہ سب مصیبتیں اٹھانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میرے چچا کے پاس ایک موٹر ہے فروخت کے لئے۔ چلے جاؤ ان کے پاس ۔"ہماری ہمت جو مندرجہ بالا دو درد ناک واقعات کے پیش آنے سے پست ہو چکی تھی پھر لنگوٹ باندھ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ بصد شکریہ ان کے چچا کا پتہ حاصل کیا گیا۔ اس رات ہم صرف ایک گھنٹہ کے لئے سو سکے۔ مارے خوشی کے آنکھ ہی نہ لگتی تھی مگر اسی گھنٹہ بھر کے خواب میں ہم کو کشف ہو گیاکہ اب ایک موٹر کے مالک بن چکے ہیں۔ چنانچہ ہم پورے یقین کے ساتھ صبح ان کے چچا جان کے گھر چلے گئے۔ان کی ملاقات سے معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کہلاتے ہیں۔ ویسے ہے تو ان کی پرچون کی دکان مگر ان کے دادا کسی سکول میں ماسٹر لگ گئے تھے۔ بس اب ان کی اولاد خودبخود پروفیسر بنتی چلی جا رہی ہے۔انہوں نے جو گاڑی ہم کو دکھائی ہم نے بلا رد و کد اس کو قبول کر لیا......گاڑی نہایت پرانی تھی اس لئے لامحالہ ہم نے اعتراض کیا ۔ جواب میں وہ منہ پھاڑ کر بولے ۔ "ارے آپ کو نہیں معلوم ، اولڈ از گولڈ۔"اس انگریزی محاورہ پر ہم رعب میں آکر خاموش ہو گئے ۔ وہ دوبارہ بولے۔"اور صاحب ! یہ تو خوش قسمتی ہے کہ آپ اس نادر اور قیمتی تاریخی موٹر کے مالک بننے جا رہے ہیں ایڈورڈ ہشتم کی ذاتی گاڑی تھی یہ۔""اچھا "......ہم نے آنکھیں پھاڑیں۔"اور نہیں تو کیا ، اس پر خاص الخاص انہی کی تشریف آیا کرتی تھی۔ان کے بعد پتہ ہے کس کے پاس آئی یہ موٹر ؟" پھر خود ہی فرمایا۔ "اس کے بعد یہ آئی جناب والا......جارج پنجم کے پاس......ایک بیڑی ہو گی آپ کے پاس ؟"وہ بولے ۔اس موقع پر ایسی نادر روز گار اور تاریخی موٹر کے مالک کی اس لاچاری، عسرت اور غربت پر شدت سے قلق ہوا اور اس سے زیادہ اپنے پاس بیڑی موجود نہ ہونے پر افسوس ۔یکایک پیچھے سے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں، معلوم ہوا بہت سارے بچے ہماری شکل دیکھ کر ہنسی اڑا رہے ہیں ۔ ہم نے فوراً پروفیسر صاحب سے مدد لی اور خود بھی ڈانٹنے کی کوشش کی اور چنگھا ڑ کر بولے۔ " کیوں ہنس رہے ہو؟"جواب میں "لولو"اور "پونگو "قسم کے چند بے ہودہ نام پکارے گئے۔ خفا ہو کر پروفیسر صاحب نے اس شیطانی پلٹن کو ڈانٹا۔جواب میں ایک ڈھائی فٹے مسکرا کر بولے۔"ابا ......پونگو، چرخٹ، ہولٹ۔"گڑبڑا کر پروفیسر صاحب نے ہم کو دیکھا اور ہم کو متوجہ پا کر اس سانحہ سے ہماری توجہ ہٹانے کے لئے ہم کو اندر سے معائنہ کرانا شروع کر دیا۔ویسے تو خیر کوئی عیب نہ تھا ۔ ذرا ایک ہیڈ لائٹ کم تھی۔ بہر حال یہاں ہم ٹارچ سے بھی خوبصورتی سے کام چلا سکتے تھے۔ اسٹیرنگ وہیل "شاہی کھسوں "سے ذرا دبلا ہو گیا تھا۔ ہم نے نہایت عقیدت سے اس کو دیکھا۔ آخر کو بادشاہی رگڑوں سے گھسا تھا۔ونڈ اسکرین آدھا ٹوٹ گیا تھا۔ جس کی جگہ کارڈ بورڈ اور گتے کے ٹکڑے نہایت خوبصورتی سے استعمال کئے گئے تھے۔ ان کو قائم رکھنے کے لئے بجلی کی تاروں سے ایک جال تیار کرد یا گیا تھا جس کو لکڑیوں کے جالوں نے مزید پختہ کر دیا تھا۔ ویسے گئیر کی ڈنڈی بھی مفقود تھی مگر اس کی جگہ بھرنے کی خاطر ایک سرکنڈے کو ڈامر سے خوب اچھی طرح جکڑ دیا گیا تھا اور "نقل مطابق اصل" ہوگئی تھی۔اسپیڈو میٹر چڑے چڑی کا آشیانہ موجود تھا۔آزمائشی طور پر بیٹھنے کے بعد ہم پر اس کی ایک اور خوبی کا انکشاف ہوا اور وہ یہ کہ عموماً عام قسم کی موٹروں میں نرم نرم اور اچھے اچھے گدیلے لگائے جاتے ہیں جن پر بیٹھنے سے طبیعت میں سستی اور کاہلی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسل مندی جسم کو گھیر لیتی ہے اور نوبت بہ ایں جارسید کہ اکثر اوقات حوائح ضروریہ کی فراغت کے سلسلے میں بیت الخلاء تک جانے کے لئے کار کی ضرورت ہوتی ہے مگر یہ تو تاریخی اور شاہی موٹر تھی نا۔ اس میں ان تمام خرابیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ بیٹھنے والا ان تمام مردہ کرنے والی ضرورتوں میں مثلاً کاہلی ، سستی ، کسلمندی وغیرہ میں نہ مبتلا ہونے پائے۔چنانچہ اس مقصد کے لئے سیٹ پر گدیوں وغیرہ سے قطعی پرہیز کیا گیا تھا اور اس کی بجائے خالص کھجور کے ریشے پٹیوں سے جکڑ کر کیلوں کی مدد سے باندھ دئیے گئے تھے۔ جن میں کیلوں کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ لحظہ بہ لحظہ چبھتی رہاکریں اور ذرا بھی سستی پید ا نہ ہونے پائے ۔ مزید برآں کھٹملوں کے بھی پولٹری فارم کھلوا دئیے گئے تھے۔ بہر حال تمام خوبیوں یا خرابیوں نے ہم پر کوئی اثر نہ کیا۔ موٹر کی تاریخی حیثیت اپنی جگہ مسلم تھی۔ہم پروفیسر صاحب سے اگلے دن ٹرائی لینے کو کہہ آئے اور ساتھ انہیں کار کی خریداری پر پُر امید رہنے کا مشورہ دیا۔گھر آکر ہم نے ہر خاص وعام پر منکشف کر دیا کہ اب ہم بھی عنقریب کاروالے بننے والے ہیں اور ایسی ویسی موٹر کے مالک نہیں بننے والے بلکہ خاص شاہی گاڑی کے کہ جس پر سلاطین فرنگ کی سواری رہا کرتی تھی۔ ہم ایسی نادر موٹر کے مالک بننے کی خوشی میں پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس رو ز مارے خوشی کے ہم نے اپنی امت کی دن میں کئی بار ٹھکائی کی ورنہ اس سے قبل دن میں ایک آدھ بار مار لگا لینے پر اکتفا کر لیتے تھے۔دوسرے دن مارے خوشی کے ہم صبح ساڑھے چھ بجے ہی پروفیسر صاحب کے دولت کدے پر جا حاضر ہوئے ۔ آنکھ ملتے ہوئے بیزار بیزار سے نکل کر آئے اور ہم کو ذرا ٹھہر کے ٹرائل لینے کا مشورہ دیالیکن ہمارے اصرار پر ان کو مجبوراً یہی وقت آزمائش کے لئے چننا پڑا۔موٹر کے قریب پہنچتے ہی ہم بلا کسی دوسرے کام کے موٹر میں جا گھسے ۔ آخر کیوں نہ گھستے اب یہ ہماری سرپرستی میں تشریف لانے والی تھی۔"اجی اترئیے۔"پروفیسر صاحب جمائی لے کر بولے۔"کیوں ؟"ہم حیران ہو کر بولے۔"اجی دھکا لگے گا نا"وہ بولے۔"قیں".......ہم حلق میں تھوک نگل کر بولے۔ "ہیں.....دھکا ؟""جی ہاں......دھکا......بھئی شاہی گاڑی ہے نا، اجی اس کو شاہی وقتوں میں غلام دھکے لگا کر اسٹارٹ کیا کرتے تھے۔ آخر کو شاہ و عام میں کچھ تو فرق روا رکھنا پڑتا ہے۔ "وہ ہم کو ہتھے سے اکھڑتا دیکھ کر بولے۔ چنانچہ ان کا تیر کام کر گیا اور ہم شاہی غلاموں کے دھکا لگانے کے معاملے سے خوش ہو کر بے چوں و چراں اتر گئے۔اب دھکا لگنا شروع ہوا۔ دو چار میل تک دھکا دے کر دوڑائے گئے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پسینے میں شرابور ہو گئے، ناشتہ ہضم ہو گیا اور حاجت ضروری کی تکلیف پیدا ہو گئی۔"اب اس کو ہینڈل لگے گا۔ "پروفیسر صاحب مسکرا کر بولے اور گاڑی کی پچھاڑی کا ڈھکنا اٹھا کر اس میں غرق ہو گئے۔ دس منٹ کی کھٹ پٹ کے بعد انہوں نے لوہے کا ایک مڑا ہوا آلہ نکالا۔"یہ ہینڈل ہے۔"انہوں نے عینک صاف کرتے ہوئے کہا اور ہم نے بڑی عقیدت سے اس شاہی اوزار کو دیکھا۔ ہمیں اب واقعی موٹر کے شاہی ہونے کا یقین ہوتا جارہا تھا۔ہینڈل کو انجن میں ڈال کر انہوں نے خوب زور زور سے گھمانا شروع کر دیا۔ مارے تکلیف اور اذیت کے موٹر چیخنے چلانے لگی اور گھڑ گھڑا گھڑ گھڑا کر اس نے ہم سے فریاد کی۔ ہم کو بہت ترس آیا اور شفقت سے ہم نے اس پر ہاتھ پھیر پھیر کر پچکارنا شروع کردیا۔ اچانک موٹر زورسے چیخی جیسے زلزلہ آگیاہو۔ ہم ہڑبڑا کر ایک طرف بھاگ نکلے۔ پروفیسر صاحب ہم کو بھاگتے دیکھ کر پوری قوت سے چیخے ۔ "ارے صاحب کہاں چلے ، ارے دھکا دیجئے ......دھکا۔"ہم اسی رفتار سے واپس آئے اور پروفیسر کو دھکیلنے لگے۔"ارے مجھے نہیں ، صاحب ! موٹر کو دھکا لگائیے۔"پروفیسر صاحب بلبلا کر بولے۔ہم نے شرمندہ ہوکر ان کو چھوڑ دیا اور موٹر کو دھکا لگانے لگے۔ اب زلزلہ کی شدت میں اضافہ ہو تا جا رہا تھا۔ دفعتاً موٹر تھوڑا سا خودبخود رینگی اوراچھل کر ایک طرف بھاگ چھوٹی۔ گڑبڑا کر پروفیسر صاحب چیخے ۔ "ارے روک کے۔ اماں بھاگئیے، انصاری صاحب ، اب رک".......ہم گھبرا کر موٹر کے پیچھے بھاگے اور راستے ہی میں لپک لیا اب ہم باقاعدہ موٹر میں سوار تھے او ر دل ہی دل میں موٹر کی اس شاہانہ حرکت پر غور کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب اسٹئیرنگ کو دبوچ کو بولے۔"دیکھا صاحب !ملاحظہ فرمایا، موٹر کی نجیب الطرفینی کو ، آخر کو شاہی موٹر ہے نا۔"ہم پہلے ہی قائل ہوئے جا رہے تھے، تڑ سے گردن ہلا دی۔ موٹر کی ایک اور شاہانہ خوبی کا انکشاف بھی ہمیں چلتی موٹر میں بیٹھ کر ہوا کہ آواز تو موٹر کی راکٹ جیسی تھی لیکن چال وہی شاہی یعنی دلکی ۔ راستے میں لوگ شاہی موٹر کی اس دلکش آواز سے متاثر ہو کر کھڑے ہو جاتے اور دوکانیں چھوڑ چھاڑ ادب سے اس شاہی موٹر کو ملاحظہ فرماتے۔ دفعتاً پچھلے افق سے ایک دلکش گھنگھرؤں کی آواز آئی۔ ہم نے مڑ کر دیکھا، پیچھے ایک گدھا گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گدھا گاڑی ہمارے برابر آگئی اور پھر تیر کی طرح آگے نکل گئی۔ مارے غیض و غضب کے ہماری بری حالت ہو گئی، گردن پھیر کر پروفیسر صاحب کو دیکھا، ان کی کیفیت ہم سے مختلف نہ تھی۔ مارے طیش کے بپھرے جاتے تھے مگر میری طرح خود وہ بھی مجبور تھے۔ رخ بدل کر دور افق پر غائب ہوتی ہوئی گدھا گاڑی کو دیکھ کر بڑبڑائے ۔ "اہم......بہم.......غررر .......غچ گدھا ہی تو ہے نا کم بخت! بادشاہی سواری نہیں پہچانتا۔ "پھر ہم سے مخاطب ہو کر بولے۔"کیوں صاحب ! یہ جب سے جمہوریت وغیرہ آئی ہے پرانی قدریں تو یک لخت ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔"یہ کہہ کر انہوں نے داد طلب نگاہوں سے ہم کو دیکھا۔ہم گدھا گاڑی سے زیادہ پروفیسر صاحب پر بھنا رہے تھے چنانچہ چانٹا سا مارا۔"قطعی غلط۔"پروفیسر صاحب چیں بہ چیں ہو کر بولے۔"قیں.....یعنی کہ کیا مطلب ؟"ہم بولے۔ "مطلب یہ ہوا ، بادشاہی نظام حکومت بھی کوئی نظام حکومت ہے؟"اس میں تو یکسر خرابیاں ہی خرابیاں ہیں۔"پروفیسر صاحب با ت کاٹ کر بولے۔"مثلاً۔"اس اثناء میں ہم چھٹی میں پڑھی ہوئی معاشیات اور معدنیات کے اہم نوٹس یا د کر چکے تھے اس لئے کھٹ سے بولے۔"مثلاً یہ کہ عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔ غریب ، غریب تر ہوتے جاتے ہیں۔ امراء کا طبقہ ، امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ موٹے سیٹھ توند بڑھائے جاتے ہیں۔"ہم جوش میں آکر مسلسل بولے جا رہے تھے۔ فصاحت و بلاغت کا ایک دریا تھا کہ ہمارے منہ سے امڈا چلا آ رہا تھا۔ پروفیسر صاحب کا نقطہ اشتعال ماچس کے قریب آتا جا رہا تھا۔ ارشاد ہوا۔"تو یعنی کہ گدھا گاڑی والے کی یہ حرکت پسند آئی آپ کو۔"اس مرحلہ پر ہم لاجواب ہو جاتے مگر دا د دیتے ہیں دماغ کو کہ ادھر سوال گونجا ادھر تڑ سے جواب حاضر ۔ لہٰذا ہم نے فوراً کہا۔" تو گویا اگر شاہی نظام ہوتا تو یہ موٹر آپ کے نیچے ہو سکتی تھی؟وہ تو دعا دیجئے جمہوریت کو کہ زر کی تقسیم یکساں اور مساوی ہے۔"اس بات کا اگر پروفیسر صاحب جواب دیتے تو ان کی موٹر پر حرف آ جاتا۔ ادھر ہم بھی "زر "کے لفظ پر اصل رز اور اس پر سود یا د آ جانے کی وجہ سے اپنے میٹرک میں ڈیڑھ بار فیل ہوجانے پر دست تاسف ملنے لگے۔پروفیسر صاحب نے ہماری حاضر جوابی اور لاجواب ہوجانے کے بعد غصہ موٹر پر اتارنے کی کوشش کی اور سٹئیرنگ چھوڑ چھاڑ کر پیچھے پڑ گئے۔ ادھر وہ نیچے جھکے کہ گاڑی ڈگمگائی ۔ ہم نے گھبرا کر اسٹئیرنگ پکڑا تو وہ چلی سرکاری نالے کی طرف ۔ چنانچہ ہم نے گھبرا کر پروفیسر صاحب کو آواز دی۔ انہوں نے وہیں سے ہاتھ ڈال کر اسٹئیرنگ کھنچنا چاہا۔ نسل در نسل چلنے والی یہ تاریخ شاہی گاڑی پروفیسر صاحب کے جلال کی تاب نہ لا سکی اور اسٹئیرنگ کھٹ سے ٹوٹ کر ہاتھ میں آگیا۔ گڑ بڑا کر پروفیسر صاحب نے نعرہ لگایا۔"ارے ، بریک دبائیے بریک۔"ہم گھبرا گئے ، ہاتھ پاؤں پھول گئے، ہم نے بھی جوابی نعرہ لگایا۔ "کدھر؟"پروفیسر صاحب بولے۔ "وہ ادھر والا دائیں ہاتھ کو۔"اب جو ہم پروفیسر صاحب کے بتائے ہوئے مقام کی سمت دیکھتے ہیں تو وہاں ایک سوراخ میں سے دھات کا ایک جھنڈ تو جھانکتا نظر آتا ہے مگر بریک نام کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ مجبوراً سوراخ میں انگلی ڈال کر اس کو دبانا چاہا۔ وہ تو کیا دبتی اپنی ہی انگلی پھنس گئی۔"ہائے ، ہماری انگلی ۔" ہم بلبلا کر بولے۔نالہ بالکل قریب آ چکا تھا۔ پروفیسر صاحب نے لاچاری سے چاروں طرف دیکھا اور کود کر نالے کے قریب جا کھڑے ہوئے، نہایت پسپائت کے عالم میں انہوں نے موٹر روکنے کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔ موٹر تو خیر رک گئی مگر پروفیسر صاحب ایک جھٹکے کے ساتھ نالے میں جا گرے۔ ہم موٹر سے اترنا ہی چاہتے تھے کہ رینگی تھوڑی سی موٹر اور اپنے آقا کے نزدیک ہی جا پڑی۔اب اس کے بعد کا قصہ بڑا طویل ہے۔ بس آپ اتنا اور سن لیں ک ہم نے کار اور پروفیسر صاحب کی شان میں کئی نامعقول اور بے ہودہ الفاظ استعمال کئے اور کار کے بغیر ہی اپنی "صاحبی "کو مکمل خیال کیا اور گھر پہنچ کر اپنی قدیم سائیکل سے رو رو کر معافی مانگی۔ اسی سلسلے میں بطور رشوت اس کی رپیرنگ بھی کرالی۔ ہم اب بھی صاحب ہیں لیکن "بے کار صاحب
(جمشید انصاری )