شروع کے دنوں میں ہی ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جامعہ میں داخلہ لینا اتنا مشکل نہیں جتنا اس میں خیرو عافیت کے ساتھ داخل ہونا۔ ۔ ۔ علم کے نئے نویلے پرستاروں کے ساتھ یہاں وہی سلوک کیا جاتا ہے جس کا سامنا عموماً نوآموز سخن وروں کو مشاعروں میں ہوتا ہے۔ یوں تو ہم نے شاعرانہ مبالغے کی رعایت سے ہمیشہ ہی اپنے آپ کو شیر جانا ہے لیکن جامعہ میں آ کر پہلی بار ادراک ہوا کہ جنگل کا بادشاہ شیر جب شہر آتا ہے تو کیونکر معصوم شوہر کی طرح بھیگی بلی بن جاتا ہے۔ یہ عقدہ بھی ہم پر یہیں کھلا کہ جامعہ میں داخلہ لینے اور داخل ہونے کے لئے آپ کو بی اے کا ڈگری ہولڈر ہونے کے ساتھ ساتھ کسی ماہر استاد موسیقی سے ریاض لینا بھی اشد ضروری ہے ۔ اگر آپ کو شعرو شاعری سے نیاز ہے تو ٹھیک ، ورنہ کسی قادر الکلام شاعر کا تلمذ بھی شرط ٹھہری۔ ہماری بدقسمتی کہ اپنی نفاست طبع کے باعث (جسے باذوق حضرات نے ہماری کور علمی جانا) ہم مندرجہ بالا فنون کے اظہار میں اپنے میزبانوں کی توقعات کے برعکس نکلے۔ گلا ہم نے دست قدرت سے ایسا پایا ہے کہ اگر کسی تقریب میں بہ امر مجبوری گانا ہی پڑا تو سننے والوں کو دیر انتظامیہ سے "گلہ" رہا۔ بارہا تماشا بھی دیکھا کہ سامعین اس گانے کے ماخذ کو گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں، کچھ عناد پرست تو ہاتھوں کے گستاخ اشاروں سے اسے دبانے کا عملی مظاہرہ بھی کر ڈالتے ہیں۔ ایک دفعہ تو احباب ہمیں یہ کہہ کر "ماہر ناک، کان اور گلا" کے پاس لے گئے کہ چائینز کھانوں کی چاہ میں کوئی بے سرا مینڈک کھا بیٹھے ہیں جو وقت بے وقت ٹراتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ اب ذرا شاعری کی سنئیے ۔ شعر یاد کرنے کے لئے جس غیر معمولی حافظہ کی ضرورت ہے، اس کا ہمارے ہاں ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ پھر شاعر نظر آنے کے لئے جن جملہ لوازمات کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے، وہ ہم میں سرے سے ناپید ہیں کہ نہ تو ہمارے بال ہی غیر معمولی طور پر بڑھے ہوئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر وطن عزیز میں موتراشوں کی کم یابی پر تشویش ہو، نہ کہیں سے کوئی ایسا ثبوت ملتا ہے کہ ہم اپنے سکے چھپانے کے لئے مٹی کے گولگ کی بجائے اپنے سر کی درمیانی "پناہ گاہ" سے استفادہ کرتے ہیں۔ صابن کے خرچ میں بھی ہمیں کبھی اسراف جیسے گناہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ ہمارے منہ اور بالوں کی سرحدوں میں گہرے مراسم ہیں اور ہمیں شاعروں کی طرح فاضل رقبہ سیراب نہیں کرنا پڑتا۔ لباس کے معاملے میں اگرچہ ہم خاص اہتمام کے عادی نہیں پھر بھی کوشش کے باوجود بے ڈھنگے معلوم نہیں ہوتے اور یہ شاعرانہ حلیہ سے اختلاف کی صورت ہے ۔ شاعر رکھنے کے لئے جس مخصوص ڈیل ڈول کی ضرورت ہوتی ہے ، بد قسمتی سے ہم اس سے بھی محروم ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ محض شاعروں کی وجہ سے ہمیں شاعری سے کبھی بھی رغبت نہیں رہی۔ فنون لطیفہ کی اس "بے قدری" کی بنا پر جو سانحات ہم پر گزرے، وہ تو ایک الگ داستان ہے البتہ یہ جان کر خون سیروں بڑھ گیا کہ ابھی کچھ پرستاران ادب جہاں میں باقی ہیں جو فنون لطیفہ کے سچے اور کھرے قدردان ہیں۔
ادب لطیفہ کی صحیحقدر و قیمت کا اندازہ کرنا ہو تو جامعہ سے بہتر وسائل کہیںنہ پائیںگے۔ وہ حضرات جنہیں فن موسیقی اور شعرو ادب کا ذوق نہیں، ان کے لئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ کسی “اکھاڑے“ سے استفادہ کریںکیونکہ جامعہ کے سینئر طالب علم نئے آنے والوںکی صحت کا خیال رکھنا اپنا فرضمنصبی سمجھتے ہیں۔ ہمیںادھر آکر ہی معلوم ہوا کہ ڈنٹر پیلنے اور ڈنڈ لگانے میںکیافرق ہے۔ مگدر گھمانا تو ہمارے “دائیں“ہاتھ کا کھیل ہو گیا۔ مسلسل دوڑنے سے ہمیںان طالب علموںکی اعلی فہمی کا احساس ہوا جو اچھا خاصا پرسکون انداز میںپڑھنے کی بجائے کلاس روم سے دوڑنے کو ترجیحدیتے ہیں۔ وہ طالب علم جو اسمبلی کے دوران پیٹ درد کا بہانہ بنا کر یا بستوںمیںدفن لنچ بکسوں کی “حفاظت“کے خیال سے کلاس روم میںبیٹھے رہتے ہیں، انہیںشدید مشکلات پیش آ سکتی ہیں کیونکہ نو آموز طالبان جامعہ کو پی ٹی کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنا از حد ضروری ہے ۔ یہاںبھی ہماری ان مشقوںنے ساتھ دیا جو ہم وقت پر سکول پہنچنے کی بنا پر کیا کرتے تھے۔ قومی ترانہ اور “دعا“اگرچہ ہمیں فر فر یاد تھے لیکن گلے کے دائمی زکام میں وہ کسی اور ہی زبان کی تخلیق معلوم ہوتے تھے۔ ۔ ۔۔ پینٹ کے نیچے چڈی پہننی ہمیںکبھی بھی پسند نہیںرہی لیکن جامعہ میں آ کر احساس ہوا کہ چڈی کے اوپر نیکر بھی پہننی چاہیے۔ ایک اضافی صفت جو نئے آنے والوں میںکوٹ کوٹ کر بھری ہونی چاہیے، وہ فن نقالی ہے۔ آپ کم از کم ایسی آواز ضرور نکال سکتے ہیں کہ متعلقہ جانور اسے سن کر ایک دفعہ ضرور متوجہ ہو یا کم از کم آپ کو اس کے سامنے شرمندگی کا احساس نہ ہو۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیںبھی اس کی افادیت کا اس وقت قائل ہونا پڑا جب پہلی بار ہمیںمعلوم ہوا کہ طوطا “میاںمٹھو“کے ساتھ ساتھ “ٹیںٹیں“بھی کرتا ہے، اس سے پہلے ہم یہ بھی نہیںجانتے تھے کہ مرغا تو “ککڑوںکڑوں“کرتا ہے تو پھر مرغی کیا کرتی ہے؟۔۔۔۔ اس وقت تو ہمیںسخت حیرت کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی ہوئی جب بکرے کی آواز نکالنے پر کتے کے فراق میںمبتلا ایک کتیا دوڑی چلی آئی، ایسے میں ہمیںکتیا سے زیادہ اپنے گلے پر غصہ آیا۔
(ذیشان تبسم)
Wednesday, November 11, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرہ جات:
Post a Comment