Friday, October 30, 2009

کیٹ اور کیٹ واک

چار ٹانگوں والی بلی کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ جب ہابیل قابیل کا حادثہ رونما ہو رہا تھا ، اس وقت وہاں دو جانور موجود تھے ایک کوا، دوسری بلی۔ قاتل نے مقتول کو دفنانے کا فن کوے سے نہیں بلکہ بلی سے سیکھا تھا اور اسی دن سے یہ دہشت گردوں کا امتیازی نشان بنی ہوئی ہے۔ فرعون اپنے لکڑی کے تخت پر جب بھی بیٹھتا ، اس کی گود میں یہی "دہشت گردی" ہوتی۔ ایک مرتبہ فرعون کو کسی بات پر سخت غصہ آ گیا ، اس نے بے چاری بلی کو اتنی زور سے بھینچ ڈالا کہ وہ پورا "میاؤں" بھی نہ بول سکی۔ اس کے بعد چالاک وزیراعظم نے اس کا تخت لوہے کا بنوا دیا جس کی شکل بلی کی سی تھی، فرعون اس پر غصہ میں مچلتا رہتا۔ اس چکر میں کئی مرتبہ اس کی پتلون بھی پھٹ گئی لیکن ظالم نے غصہ چھوڑا، نہ بلی چھوڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔قلوپطرہ کا بھی بلی سے لگاؤ اس قدر تھا کہ بڑے بڑے جرنیل خواہش کرتے کہ کاش! وہ بلی ہوتے لیکن جیسے ہی قلوپطرہ کے سامنے آتے ، بھیگی بلی بن جاتے۔ قلوپطرہ سے شادی کا شاہی امیدوار اس کا سگا بھائی تھا، مصر کے اس وقت کے رسم و رواج میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ دوسری جانب جب جولیس سیزر اس سے شادی کا خواہش مند ہوا تو فیصلہ بلی پر چھوڑ دیا گیا کہ بلی جس کی گود میں جا بیٹھے گی، قلوپطرہ اسی سے شادی رچالے گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلی جولیس سیزر کی گود میں جا بیٹھی لیکن مورخ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ اس کی گود میں چھیچھڑے کس نے رکھے تھے؟۔۔۔۔۔ قلوپطرہ کی بلی کالے رنگ کی تھی اور اس کی آنکھیں نیلے رنگ کی تھیں جبکہ قلوپطرہ بھی کالے رنگ کی تھی اور اس کی رگیں نیلے رنگ کی تھیں جو پورے بدن پر ابھری ہوئی تھیں اور یہی اس کے لازوال حسن کی دلیل سمجھی جاتی تھیں، اس وقت "آئی وی" یعنی نس میں ٹیکہ لگنے کا رواج نہیں تھا ورنہ قلوپطرہ کو تو اندھا بھی نس کا ٹیکہ لگا سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ایران کے شاہ نے جب فرح دیبا کو دیکھا تو اس پر مر مٹے۔ تحفہ کے طور پر اپنی سب سے پیاری بلی کے دو بچے اس کی نذر کئے اور جواب میں ملکہ فرح دیبا نے شاہ کو دو انسان کے بچے تحفہ میں دے دئیے جو خمینی کی وجہ سے ایران کے تخت پر نہ بیٹھ سکے۔ اس میں بے چاری بلی کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہٹلر کی گرل فرینڈ کو بلی سے بہت پیار تھا۔ جب یہودیوں کی غداری کی وجہ سے ہٹلر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے اجتماعی خود کشی کا پروگرام بنایا۔ ہٹلر نے پہلے گرل فرینڈ کو گولی ماری اور پھر بلی کو کیونکہ گرل فرینڈ بلی کو مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھی، آخر میں ہٹلر نے خود کو گولی ماری کیونکہ وہ ان دونوں کو مرا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔



یار لوگوں کو تادم تحریر معلوم نہیں کہ ماڈلنگ کس نے شروع کی تھی؟ اسٹیج پر آ کر لوگوں کے سامنے ماڈل کی پیمائش کروا کر کپڑوں کی نمائش کا طریقہ ویسے تو اسی وقت ایجاد ہو گیا تھا جب یورپی لڑکیوں نے کپڑوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا، مجبوراً ماڈلنگ کے ذریعے انہیں کپڑے پہننے کی ترغیب دی جانے لگی لیکن پھر بھی اسٹوری میں کہانی نہ آئی۔ یہاں بھی بلی ہی کام آئی جس کی چال تمام جانداروں میں سب سے زیادہ دلکش ہے ۔ کبھی اس کی مستانی چال پر غور کریں کہ سامنے کے دو پیر ایک دوسرے کے سامنے پڑتے ہیں۔ جس وہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کچھ سائڈوں پر بھی ڈولتی ہے۔ بلی کی اس چال کو "کیٹ واک" کہتے ہیں۔ اس چال کو اپناتے ہی ماڈلنگ کی دنیا میں بھونچال آ گیا۔ اب لوگ کپڑوں سے زیادہ کیٹ واک دیکھنے جاتے ہیں کیونکہ کیٹ واک کرتے ہوئے ماڈل کا بدن پنڈولم کی طرح ہلتا ہے جس سے کپڑوں کی پرفیکٹ فٹنگ کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کمپنی کی مشہوری کے لئ ہم کیٹ واک سیکھن کا طریقہ بھی بتا دیتے ہیں تاکہ اگر کوئی اس سے استفادہ کرنا چاہے تو شوق سے کر لے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سر پر ایک عدد بڑی پلیٹ (چاول کھانے والی) رکھیں، دایاں پاؤں بائیں پاؤں کے عین سامنے چار انچ کے فاصلے پر رکھیں اور پھر بائیں پاؤں کے سامنے اسی انداز میں رکھیں، دس گز دور جا کر بائیں پاؤں پر وزن ڈال کر گھو م جائیں اور اسی طرح واپس اسٹارٹنگ پوائنٹ پر آ جائیں۔ پنجابی میں اس کو کہتے ہیں "جتھے دی کھوتی، اوتھے ہی آن کھلوتی"۔۔ ۔ ۔ ۔
(شاہد اطہر)

Monday, October 26, 2009

دھوبی آج کپڑے دھو رہا ہے

بڑی محنت کرتا ہے۔ شام کو بھٹی چڑھاتا ہے، دن بھر بیکار بیٹھا رہتا ہے۔ کبھی کبھی بیل پر لادی لادتا ہے اور گھاٹ کا رستہ لیتا ہے۔ کبھی نالے پر دھوتا ہے، کبھی دریا پر تاکہ کپڑوں والے کبھی پکڑ نہ سکیں۔ جاڑا ہو تو سردی ستاتی ہے، گرمی ہو تو دھوپ جلاتی ہے۔ صرف بہار کے موسم میں کام کرتا ہے۔ دوپہر ہونے آئی، اب تک پانی میں کھڑا ہے اس کو ضرور سرسام ہوجائے گا۔ درخت کے نیچے بیل بندھا ہے۔ جھاڑی کے پاس کتا بیٹھا ہے۔ دریا کے اس پار ایک گلہری دوڑ رہی ہے۔ دھوبی انہیں سے اپنا جی بہلاتا ہے۔
دیکھنا دھوبن روٹی لائی ہے۔ دھوبی کو بہانہ ہاتھ آیا ہے۔ کپڑے پڑے پر رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ کتے نے بھی دیکھ کر کان کھڑے کئے۔ اب دھوبن گانا گائے گی۔ دھوبی دریا سے نکلے گا۔ دریا کا پانی پھر نیچا ہوجائے گا۔
میاں دھوبی! یہ کتا کیوں پال رکھا ہے؟ صاحب کہاوت کی وجہ سے اور پھر یہ تو ہمارا چوکیدار ہے دیکھئے! امیروں کے کپڑے میدان میں پھیلے پڑے ہیں، کیا مجال کوئی پاس تو آجائے، جو لوگ ایک دفعہ کپڑے دے جائیں پھر واپس نہیں لےجاسکتے۔ میاں دھوبی! تمہارا کام بہت اچھا ہے۔ میل کچیل سے پاک صاف کرتے ہو، ننگا پھراتے ہو۔
(ابن انشاء)

Saturday, October 24, 2009

کون کیا ہے

کے عنوان سے مشہور ہستیوں کے حالات زندگی ، کون کیا ہے؟ اکثر چھپتے رہتے ہیں جنہیں بیشتر لوگ زیادہ شوق سے نہیں پڑھتے اور اکثر شکایت کرتے ہیں کہ کچھ تشن11;ی سی رہ ج575;تی ہے، شاید اس لئے فقط ان ہستیوں کا ذکر کیا 580;اتا ہے ، جنہیں پبلک پہلے سے جانتی ہے ، یا اس لئے کہ ان ہستیوں کی فقط تعریفیں ہی تعریفیں کی جاتی ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے قدریں بھی بدل چکی ہیں ، غالباً ان دنوں پڑھنے والے سوانح عمری کی سرخیاں ہی نہیں جاننا چاہتے، وہ کچھ اور باتیں بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہ ان کی رائے میں غیر معروف ہستیاں بھی توجہ کی مستحق ہیں۔ چنانچہ نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ، کون کیا ہے کچھ یوں بھی مرتب کیا جا سکتا ہے۔
ازبر رو مانی
1960 میں جوان ہوئے۔ آپ کے شاعر بننے کے متعلق طرح طرح کی افواہیں مشہور ہیں جن میں سے کچھ تو بالکل غلط ہیں۔ سنا ہے کہ آپ 63 میں کسی لڑکی پر خواہ مخواہ عاشق ہو گئے تھے، محبوبہ نے عاشقی کی قدیم روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں خوب ستایا، پھر 65 میں کہیں غائب ہو گئی۔ محبوبہ کے چلے جانے کے بعد ان کی زندگی بالکل سنسان ہو گئی اور کچھ بھی نہ رہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوائے ان کی بیوی اور پانچ بچوں کے۔
66 میں محبت سے بیزار ہو کر لڑکیوں کے متعلق سوچنا چھوڑ دیا اور عورتوں کے بارے میں سوچنے لگے۔ ۔ ۔ ۔۔ بڑے نازک مزاج ہیں ، ایک دعوت میں سری پائے نوش کئے تو ذرا دیر بعد سر میں درد ہو گیا اور پاؤں میں موچ آ گئی۔ فقط رومانی چیزیں چکھتے ہیں جو فلمی پرچون کی زینت بنتی ہیں۔
آپ بہت ہر دل عزیز ہیں، بڑی بڑی محفلوں میں جا چکے ہیں ، فقط ایک مرتبہ۔ جدید شاعری سے دور رہے ہیں، چنانچہ زندان ، خرابے ، خوناب، سامراج، طبقاتی شعور، سرخ سویرا، سبز دوپہر، عزت آدم، ذلت مردم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قسم کی چیزوں کے پاس نہیں بھٹکتے۔
اظہر سماجی
آپ بھی شاعر ہیں اور زندان ، خرابے، خوناب، سامراج، طبقاتی شعور وغیرہ پر جان چھڑکتے ہیں۔ دراصل آپ شاعری اس لئے کرتے ہیں کہ ازبر رومانی کی خبر لے سکیں۔ جس دن ازبر صاحب نے شاعری چھوڑ دی آپ بھی ترک کر دیں گے اور اپنا وقت کسی بہتر مشغلے میں صرف کیا کریں گے۔

(شوکت تھانوی)

Thursday, October 22, 2009

کھانا خودبخود پک رہا ہے

دیکھنا۔ بیوی آپ بیٹھی پکا رہی ہے۔ ورنہ دراصل یہ کام میاں کا ہے۔ ہر چیز کیا قرینے سے رکھی ہے۔ دھوئے دھائے برتن صندوق پر چُنے ہیں تاکہ صندوق نہ کھل سکے، ایک طرف نیچے اوپر مٹی کے برتن دھرے ہیں۔ کسی میں دال ہے اور کسی میں آٹا، کسی میں چولہے، پھکنی اور پانی کا لوٹا پاس ہے تاکہ جب چاہے آگ جلائے، جب چاہے پانی ڈال کر بجھا دے۔ آٹا گندھا رکھا ہے، چاول پک چکے ہیں۔ نیچے اتار کر رکھے ہیں۔ دال چولہے پر چڑھی ہے۔ غرض یہ کہ سب کام ہوچکا ہے۔ لیکن یہ پھر بھی پاس بیٹھی ہے۔ میاں جب آتا ہے تو کھانا لا کر سامنے رکھتی ہے۔ پیچھے کبھی نہیں رکھتی، کھا چکتا ہے۔ تو کھانا اُٹھا لیتی ہے۔ ہر روز یوں نہ کرے تو میاں کے سامنے ہزاروں رکابیوں کا ڈھیر لگ جائے۔ کھانے پکانے سے فارغ ہوتی ہے تو کبھی سینا لے بیٹھی ہے۔ کبھی چرخہ کاتنے لگتی ہے، کیوں نہ ہو، مہاتماگاندھی کی بدولت یہ ساری باتیں سیکھی ہیں۔ آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائے تو ڈاکٹر سے علاج کروانا پڑے۔
(ابن انشاء کی "اردو کی آخری کتاب" سے )

Friday, October 16, 2009

اصلاح مطلوب ہے

ہر آدمی کا بچہ بڑا ہو کر ایک آدمی بنتا ہے اور پھر فارغ بھی ہوتا ہے تو کچھ نہ کچھ ضرور سوچتا ہے۔ یوں تو مجھے بھی بہت کام کرنے ہوتے ہیں مگر زیادہ کام دیکھ کر کچھ کرنے کو جی نہیں کرتا اور صرف کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہوں لیکن آج تو کمال ہو گیا کہ جب سوچتے سوچتے اکتا گیا اور قریب تھا کہ سوچنا چھوڑ دوں تو اچانک ایک بالکل نئی انقلابی سوچ دماغ میں پیدا ہوئی کہ کوئی بڑا کام کیا جائے۔ یہ انقلابی سوچیں بھی بیٹھے بٹھائے ہی پیدا ہو جایا کرتی ہیں۔ ۔ ۔ نظر دوڑائی تو نظر دوڑی مگر پیچھا کرنے کی اتنی کوشش نہ کی۔ اندازہ ہوا کہ کہ سب بڑے کام بڑے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ ایک نظر ان ڈگریوں پر ڈالی جو نالائقی کے باعث حاصل نہ کر سکا۔ دماغ پر زور ڈالا، وہ بھی اثر انداز نہ ہو سکا۔ آخر سوچ اس نتیجہ پر پہنچی کہ کچھ علمی و اصلاحی کام کیا جائے اور محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا گیس پیپر تیار کیاجائے جس سے وہ طالب علم مستفید ہو سکیں جو میری طرح اکثر و بیشتر امتحانات میں بری طرح فیل ہو جاتے ہیں اور اسی باعث ان کی شادی ہونے میں کئی کئی سال کی تاخیر ہو جاتی ہے۔ وہ ہمارا گیس پیپر پڑھ کر پرچے میں کم از کم پہلا صفحہ ہی کالا کر دیں، پہلا صفحہ کالا کرنے کے بھی نمبر ملتے ہیں۔ مجھے ایک دفعہ ایک پرچہ کا منہ کالا کرنے پر سو میں سے سات نمبر ملے تھے
خیر یونہی نمبر یاد آ گئے حالانکہ ماضی کا کیا رونا، حال کون سا تابناک ہے کہ مستقبل کی فکر کی جائے؟ ۔ ۔ ۔ علم کا دریا ہے کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سر کے اوپر سے گزر رہا ہے مگر عقل ہے کہ کام ہی نہیں کر رہی۔ کبھی سوچتا ہوں کہ دو اینٹیں کھڑی رکھ کر ان پر کھڑا ہو جاؤں مگر ڈرتا ہوں کہ پاؤں پھسل گیا تو الٹا خود ہی ڈوب جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ فقرہ بنانے کا طریقہ و ترکیب سے آپ بخوبی واقف ہونگے ، اس لئے وضاحت کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر آپ واقفیت نہیں رکھتے تو کسی سے پوچھ لیجئے گا اور پتہ نہ چلنے پر بجائے پریشان ہونے کے میری طرح صبر کر لیجئے گا۔ مجھے بھی محاوروں کو فقروں میں استعمال کرنے کا شوق نہیں ہے۔
(علی راز)

Thursday, October 15, 2009

کراچی کا قبرستان

اے کراچی ملکِ پاکستان کے شہرِ حسیں
مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں

قبر کا ملنا ہی ہے اول تو اک ٹیڑھا سوال
اور اگر مل جائے اس پر دخل ملنا ہے محال

ہے یہی صورت تو اک ایسا بھی دن آ جائے گا
آنے والا دور مُردوں پر مصیبت لائے گا

مردماں بیسار ہونگے اور جائے قبر تنگ
قبر کی تقسیم پر مُردوں میں چھِڑ جائے گی جنگ

سیٹ قبرستان میں پہلے وہ مُردے پائیں گے
جو کسی مردہ منسٹر کی سفارش لائیں گے

کارپوریشن کرے گا اک روز ریزولوشن یہ پاس
کے ڈی اے اب مرنے والوں سے کرے یہ التماس

آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجئے
یعنی جرمِ انتقالِ ناگہاں مت کیجئے

کچھ مہینے کے لئے ہوجائے گی تربت الاٹ
اس کے بعد آئے گا نوٹس چھوڑ دیجئے یہ پلاٹ

تربت شوہر میں اس کی اہلیہ سو جائے گی
"محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی"

ایک ہی تابوت ہو گا اور مردے آٹھ دس
آپ اسے تابوت کہیے یا پرائیوٹ بس

ایک ہی تربت میں سو جائیں گے محمود و ایاز
دور ہو جائے گا فرقِ بندہ و بندہ نواز

شاعر مرحوم جب زیر مزار آ جائے گا
دوسرے مردوں کو ہیبت سے بخار آ جائے گا

اس سے یہ کہہ کر کریں گے اور مردے احتجاج
ہم کو ہوتا ہے تمہاری شاعری سے اختلاج

خامشی شہرِ خاموشاں میں ہے دستورِ ازل
تم یہاں بھی چھیڑ دو گے غیر مطبوعہ غزل

ہم کہیں گے سو رہو، آرام کرنا فرض ہے
تم کہو گے ہو چکا آرام، مطلع عرض ہے

سرخیاں یہ ہونگیں جنگ و حرمت میں ڈان میں
ڈال لی ہیں جھگیاں ُمردوں نے قبرستان میں

رات وہ مُردوں نے ہنگامہ کیا زیرِ مزار
ایک مردہ جیل میں ہے ، دوسرا مردہ فرار

ایک مردہ بھاگ اٹھا چھوڑ کر گور و کفن
قبر پر مرحوم کی ہے قبضہء کسٹوڈین

برتری جاتی رہی ، حفظ مراتب مٹ گیا
ایک مردہ ایک پولیس والے کے ہاتھوں پِٹ گیا

رات اک تربت پہ دو مردوں میں سودا پٹ گیا
ایک مردہ پانچ سو پگڑی لے کر ہٹ گیا

ہم تو سمجھے تھے ہمی ہیں اس جہاں میں بیقرار
اُس جہاں والوں کو بھی ملتی نہیں راہِ فرار

صرف زندوں کو ہی فکرِ عیش و آسائش نہیں
اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں

(دلاور فگار)

Monday, October 12, 2009

بے ادب رکشے

کسی تعارف کا محتاج نہیں کیونکہ نام ہی کافی ہے ۔ ۔ ۔ قلم اٹھانے کی جسارت صرف اس لئے کی کہ جو باتیں رکشہ کے اندر اور باہر رقم ہوتی ہیں، وہ مسافروں پر کسی نہ کسی انداز سے اثر انداز اور منطبق ہوتی ہیں۔
ایک مرتبہ ہم ایوب چوک جسے جھنگ کا "لکشمی چوک" بھی کہہ سکتے ہیں ، کے پاس کھڑے مظلومیت کی تصویر بنے رکشہ کے منتظر تھے۔ نجانے کون سے کونے سے ایک رکشہ ہمارے قریب آ کر رکا۔ ہم انتہائی پھرتی سے اس میں داخل ہوئے مگر شاید اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے باہر نکلے اور ہمارے ساتھ ہی ایک جلاد صفت مرد پانچ عدد بچوں کے ہمراہ باہر نکلا کیونکہ رکشہ انہیں اتارنے کے لئے رکا تھا، نہ کہ ہمیں چڑھانے کے لئے۔ ا س کے بعد ہمارے چودہ طبق روشن ہو گئے ، اسی دوران ایک اور رکشہ ہمارے پاس سے ایسے گزرا جیسے کسی کتے کو اینٹ ماری گئی ہو اور وہ چینختا ہوا دوڑتا جائے۔ اس کے پیچھے لکھا تھا۔
"نہ چھیڑ ملنگاں نوں"
آخر کار ہماری رونی صورت دیکھ کر ایک خستہ حال رکشہ رکا۔ اس کی صحت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ شاید قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں بننے والا پہلا رکشہ یہی تھا۔ اندر داخل ہونے سے پہلے دروازے پر نظر پڑی جس پر لکھا تھا۔
"سفر کرنے سے قبل پچھلے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کا آخری سفر ہو"
خیر ، ہم اس میں سوار ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر عبارت "ابھی تو میں جوان ہوں" پڑھ کر ہمارا خون کھول اٹھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی سفر شروع کیا ہی تھا کہ بیچ سڑک میں "عالی جاہ" نے قدم اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ڈرائیور کے کہنے پر ہمیں چارو ناچار دھکا لگانا پڑااور رکشے کی پشت پر "غوری" لکھا دیکھ کر عجیب حیرت ہوئی۔ جونہی رکشہ سٹارٹ ہوا، ڈرائیور اسے انتہائی پھرتی سے چلانے بلکہ اڑانے لگا۔ رکشے کے اندر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنے اپنے خیالات قلم بند کئے ہوئے تھے۔ سیٹ پر یہ شعر لکھا تھا۔
"ابتدائے سفر ہے ، روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھئے ، ہوتا ہے کیا"
رکشہ پوری رفتار سے اپنی منزل یعنی ہماری منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ پیچھےسے آتے ہوئے ایک اور رکشہ نے اپنے "بزرگ" کو اوور ٹیک کیا۔ ڈرائیور نے سپیڈ بڑھا دی کیونکہ فقرہ " جلنے والے کا منہ کالا " دیکھ کر اسے غیرت آ گئی تھی۔ اب دونوں رکشوں میں مقابلہ شروع ہو گیا۔ جونہی ہم اس رکشے کو اوور ٹیک کرنے لگے، ہماری عقابی نظریں اس کے پیچھے ایک کونےسے صرف یہ پڑھ سکیں۔
" تو لنگھ جا، ساڈی خیر اے"
کچھ رکشے کی نازک اندامی اور کچھ سڑک کی حالت زار کی وجہ سے ہمارا سر مسلسل رکشے کی چھت سے ٹکراتا رہا یا یوں کہہ لیجئے کہ ہم نے آدھا سفر سیٹ پر اور آدھا ہوا میں طے کیا یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ریلوے پھاٹک کے قریب ہماری رفتار ذرا کم ہوئی تو ایک رکشہ ہمیں پیچھے چھوڑتا ہوا آگے نکل گیا۔ گو ہمارا رکشہ بوڑھا تھا مگر اس کے جذبات ابھی جوان تھے۔ رکشے کے پیچھے تحریر تھا۔
"ہم سا ہو تو سامنے آئے"
یہ عبارت پڑھ کر ڈرائیور کا ہاتھ خودبخود ریس گھماتا چلا گیا، سامنے سے ایک کوسٹر گزری جس پر لکھا تھا۔
"تیز چلو گے ، جلد مرو گے"
ڈرائیور اس سے بے پرواہ اپنی دھن میں مگن تھا البتہ ہم نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا کیونکہ ہمیں "جنت کی ہوا" کے جھونکے آنے شروع ہو گئے تھے۔ آخر کار ڈرائیور کی کوششیں رنگ لائیں، ہم مدمقابل رکشہ کو اوور ٹیک کرنے لگے، اچانک اسی کشمکش میں سامنے سے ایک ٹرک نمودار ہوا جس کی پیشانی پر تحریر تھا۔ "سپرد خدا" ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ صرف ٹرک سپرد خدا تھا، ہمارا رکشہ تو بظاہر سپرد ڈرائیور تھا۔ حسب توقع ٹرک سے ٹکر ہو گئی مگر ہم اس سے قبل ٹارزن کی سی چھلانگ لگا کر باہر کود گئے۔ ٹکر مارتے ہی ٹرک بھاگ کھڑا ہوا کیونکہ ان کی یہ عادت ہوتی ہے کہ ٹکر مار کر ثواب دارین حاصل کریں اور بھاگ کر شکریہ کا موقع دیں۔ ہماری کوشش تھی کہ ٹرک کا نمبر نوٹ کر لیں مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ٹرک کے پیچھےسلطان راہی مرحوم ہاتھ میں روایتی گنڈاسہ تھامے ہوئے تھے جس سے خون ٹپک رہا تھا اور نیچے لکھا تھا۔
"اچھا ، دوست ! پھر ملیں گے۔"
پہلی بھیانک ملاقات سے ہی ہم ڈر گئے اور چکرا کر رہ گئے۔ اس کے بعد تاحال رکشے میں بیٹھنے کی جرات نہ کی البتہ رکشے کی یاد میں یہ شعر کہنے کو جی چاہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ اس طرح سے تجھ کو بھلاتا رہا ہوں میں
لکھ لکھ کے نام تیرا مٹاتا رہا ہوں میں


حافظ محمد ثناء اللہ بابو))

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں

چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ôôôôô
تو انٹرنیٹ کھولے اور چیٹنگ روم جا پہنچے
کسی رومانی چینل میں ہوں میں منتظر تیرا
بڑے ہی مان سے میں تجھ سے پوچھوں تیرا اے ایس ایل
تو لکھے سترہ برس کی، وطن انگلینڈ ہے میرا
ôôôôô
میں لکھوں ، بیس کا سن ہے، میں ٹورانٹو میں بیٹھا ہوں
یہیں اک اشتہاری کمپنی میں جاب ہے میری
تو لکھے ، میں نمانی ہوں، ادب سے شغل رکھتی ہوں
میں لکھوں ، ہائے، اف اللہ ! تہی تو خواب ہے میری
ôôôôô
تو لکھے کیٹس اور ٹیگور پر میں جان دیتی ہوں
میں لکھوں کون ہیں یہ جو; رقابت پر ہیں آمادہ
تو لکھے ، آنجہانی ہیں ، بڑے معروف شاعر تھے
میں لکھوں، پارڈن می ! کیا سمجھ بیٹھا تھا میں سادہ
ôôôôô
بہت سی ہم میں باتیں ہوں، بہت سی فقرہ سازی ہو
بہت سے جھوٹے افسانے کہیں اک دوسرے سے ہم
یوں اک دوجے میں کھو جائیں ، بھلا دیں ساری دنیا کو
بھلا دیں وقت کی ظالم حقیقت کو سرے سے ہم
ôôôôô
بھلا دیں وقت کو ایسے، خبر نہ ہو سکے یکسر
یونیورسٹی سے بیٹا اور بیٹی لوٹ آئے ہیں
تو ان کی کھلکھلاہٹ سن کر سی پی یو کو شٹ کر دے
انہیں معلوم ہے ، ماں باپ نے جو گل کھلائے ہیں
ôôôôô
ہمیں وہ لیلٰی مجنوں کہہ کر چھیڑیں ، اور ہم بوڑھے
بہت جھینپیں جوانوں سے ، بہت شرمائیں ہم دونوں
مگر جب اگلا دن آئے ، یہی تجھ سے ہو فرمائش
چلو، اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
ôôôôô


نوید ظفر کیانی