Tuesday, July 7, 2009

(پان بلائے جان (شاہد اطہر

پان کی اصل قدر وقیمت کا ہمیں اندازہ 1971ء کی جنگ کے دوران ہوا جب جنگ کی وجہ سے پان کی درآمد معطل ہوئی۔ ان گنہگار آنکھوں نے لوگوں کو امرود کے پتوں پر کتھا چونا لگا کر ذوق تسکین کرتے ہوئے دیکھا۔ جتنی گالیاں اردو لغت میں ہوں گی، اتنی بھارت کو دی جاتیں کی کس طرح اس نے امن کو پامال کر دیا، ان لوگوں کی امن سے مراد پان ہی تھی۔ ہمیں تو یہ گمان بھی ہے کہ بکریاں بھی امرود کے پتے کھا کر اپنی زبان میں گالیاں ہی دیتی ہیں۔ ہمارے حصہ کا جوپاکستان بچا ، اس میں تو پان ہوتا نہیں ہے اور ہمارا جو بازو ہمارے حکمرانوں کی وجہ سے کٹ گیا، وہ پان میں خود کفیل تھا جس کے پان کا نام "بنگلہ"تھا جسے ہم نے خود ہی چبا کر تھوک دیا مگر اب عبث تھوکا ہوا چاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کی مس ورلڈ کی طرح بھارت کاپان "سانچی"بھی نمبر ون ہوتا ہے اور ان ہی کی طرح خوب ایکسپورٹ ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھی بھارت کا ہی پان ہے "بنارسی "جو بنارسی ساڑھی ہی کی طرح مہین ہو تا ہے جسے بھارتی ناریاں جسم کی نمائش کے لئے شوق سے پہنتی ہیں (ساڑھی کو ، پان کو نہیں)۔ امپورٹڈ پانوں میں گھٹیا پان سری لنکا کا ہوتا ہے جس کا نام "سیلون"ہے۔ یہی پان پاکستان میں آتا ہے۔ آپ اسے شوق سے کھاتے ہیں اور وہ آپ کو کھاتا ہے۔ ویسے ایک اور پان ہے "پاکستانی" جو 71ء کی جنگ کے بعد "نظریہ اشد ضرورت "کے تحت ملیر کراچی میں کاشت کیا گیا تھا تاکہ ایمرجنسی میں امرود کے پتوں کو پنواڑیوں سے بچایا جا سکے۔ اس پان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے بعد آپ "سیلون"بھی بخوشی کھا لیتے ہیں۔ہماری جاں فشاں تحقیق کے مطابق پان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی حضرت انسان کی ہے۔ دنیا میں قدم رنجا فرماتے ہی باوا آدم ؑ اور اماں جان حواؑ نے اپنے جسموں کو پان کے پتوں سے ہی ڈھانپا ہو گا۔ کیونکہ جنت بدر کرکے انہیں جس مقام پر ڈراپ کیا گیا تھا، وہاں پان ہی پان تھے کیونکہ ان کو یمن کے قریب جس جزیرہ میں دنیا داری کے لئے آزاد چھوڑا گیا وہ سلیون (موجودہ نام سری لنکا ) ہی تھا جو طوفان نوح میں پھسلتا ہوا موجودہ مقام پر اٹک گیا ۔ اسی وجہ سے سری لنکا میں آج بھی بابا آدم کے پاؤں کا نشان محفوظ ہے جسے ہزاروں ٹورسٹ روزانہ دیکھتے ہیں اور ہمارے خیالات کی تصدیق کرتے ہیں۔ ٹیکسلا کی تہذیب کا مطالعہ کرنے سے جہاں ان کے بد تہذیب ہونے کے نشانات ملتے ہیں وہاں ان کے پان کھانے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ ان کی دوکانوں کا سائز پان کے کھوکھے کے جتنا ہوتا تھا۔ پھر ان کے ظروف میں پیک دان نمایاں ہے جسے انگریز اپنی کم علمی کی وجہ سے آلات جراحی سمجھتے رہے ہیں۔ ٹیکسلا میں ایک مقام "سری کپ"ہے ، وہاں کا چونچال راجہ شام کو ایک کھیل کھیلا کرتا تھا جو کہ موجودہ "ڈرافٹ"جیسا تھا اور ہارنے والے کا سرکپ (کاٹ) دیاجاتاتھا۔ وہ کم بخت مد مقابل کو مکس تمباکو کا پان کھلا دیا کرتا تھا اور خود سادہ الائچی کا پان کھالیا کرتا تھا، مدمقابل کو چکر آنے شروع ہو جاتے تھے لہٰذا وہ گیم اور گردن دونوں ہی ہار جاتا۔ ایک مرتبہ ایک ہوشیار کھلاڑی نے پان بدل دئیے ، راجہ بوجہ چکر گیم جاری نہ رکھ سکا اور پہاڑی سے اترتے ہوئے ایسا پھسلا کہ پھر نہیں رکا ، دنیا سے ہی کوچ کر گیا۔ مرنے کے بعد ظالم کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور منہ میں پان تھا۔زمانہ قبل از تاریخ میں چونکہ پان کا استعمال کپڑوں کی جگہ ہوتا تھا لہٰذا تول کے مول نہیں ملتا تھا بلکہ طول کے مول ملتا تھا اتنے میٹر پان دے دو، تنوع پسند انسان اس وقت کلر میچنگ کا خیال رکھتا تھا۔ ہلکا زرد کچا پان اوپری حصہ جبکہ گہرا سبز پان نیچے کے حصوں کو ڈھانپنے کے کام آتا تھا۔ قیاس ہے کہ مسز قابیل جیسی فیشنی لڑکیاں اس وقت بھی مکس اینڈ میچ کرکے پان لپیٹا کرتی تھی ، صرف ایک قباحت تھی کہ اکثر پانی کا چھڑکاؤ کرنا پڑتا تھا تاکہ کپڑے تازہ رہیں۔انسانی ذہن کے ارتقاء سے کپڑے وجود میں آگئے لہٰذا پان کا رول بھی تبدیل ہو گیا۔ ہندوستان میں پان بکثرت پایا جاتا تھا اور دانشور نام کو بھی نہیں لہٰذا "بدھ "نے انہیں "مت"دینے کی ٹھانی۔ یوں بدھ مت پروان چڑھی ، جس نے کسی پیڑ کو بھی تکلیف نہ دینے کا درس دیا، بھلا پھر پان کو بیل سے کون نوچتا؟......یہ نوچ کھسوٹ اور پان کا استحصال تو مغلوں کے آنے پر شروع ہو اجنہیں ایک ہی وقت میں بہت ساری بیگمات رکھنے کا شوق تھا۔ ان میں سے کئی بیگمات ٹھیک سے ٹوتھ پیسٹ بھی نہ کرتی تھیں لہٰذا شاہی طبیب کو حکم ہو اکہ کو ئی ایسی چیز ایجاد کرو جو منہ کی بدبو کو خوشبو میں تبدیل کر دے۔ یوں پان کی شامت اعمال آئی اور اس کا استعمال شروع ہوا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ پان پر ریسرچ ہوتی رہی، فارمولے بدلتے رہے ، تراکیب بدلیں مگر نہ بدلا تو پان نہ بدلا۔پان میں تخلیقی "بیکٹیریا "بھی ہوتا ہے لہٰذا فنون لطیفہ میں اسے بہت سراہا گیا ، نواب جمن مرزا کے توحرم میں کوئی خاتون داخل ہی نہیں ہو سکتی تھی جس کے منہ پر پان کی لالی نہ سجی ہو......چچا غالب بھی پان کے بغیر شاعری نہ فرماتے تھے لیکن پان وہ صرف دارو کی بو ختم کرنے کے لئے کھایا کرتے تھے ، یوں خوب پان کھایا کرتے اور خوب تر شاعری کرتے .......حالی کی بدحالی میں پان کا بڑا ہاتھ ہے۔ ذوق بدذوق ہوتے اگر پان نہ کھاتے اور داغ نے تو اپنا تخلص پان کا داغ لگ جانے پر داغ رکھ لیا تھا ۔ پھر پان کو فنا ہوتا دیکھ کر فانی بنے، حشر پان کا حشر دیکھ کر اس حشر کو پہنچے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کو ملک بدری میں بادشاہت چھن جانے سے زیادہ قلق اس بات کا تھا کہ برما میں پان نہیں ملتا تھا۔ پان نے ان شعراء کے کلام کو کوٹھوں میں زندہ رکھا۔ کلام سننے والوں کی تواضع پان سے ہی ہوتی تھی البتہ اختتام پر جیب میں اتنے پیسے بھی نہ رہتے کہ ایک گلوری پان کھا سکیں لیکن جیسے ہی ان شرفاء کی جیب پھر سے بھری ہوتی تو کوٹھوں پر پان کھانے کے لئے جا پہنچتے۔

0 تبصرہ جات: