Sunday, November 1, 2009

ایف سولہ میں‌سرمے کی سیل

ایف سولہ کے ہنگامے اپنے عروج پر تھے کہ اتنے میں ایک پتلا پتنگ، طویل القامت ، کالا سیاہ بندہ ہاتھوں میں کپڑے کی بنی ہوئی ایک بوسیدہ اور میلی کچیلی سی پوٹلی اٹھائے وارد ہوا۔ اس نے پوٹلی دونوں ہاتھوں میں تھام رکھی تھی۔ وہ یوں ہراساں اور حواس باختہ دکھائی دے رہا تھا جسیے ابھی ابھی کوئی بنک لوٹ کر بھاگا ہو۔ اس نے آتے ہی ایک زوردار سلام کیا۔
"ماؤں ، بہنو، بھائیو اور بزرگو ! السلام علیکم۔" آواز بہت کراری تھی۔ "سب سے پہلے میں اپنا تعارف کرا دوں۔ اس بندہ ناچیز کا نام جمعہ خان لہولہان ہے۔ میرا غریب خانہ موضع بکھرانی میں ہے۔ میں تقریباً بیس سالوں سے بسوں میں دھکے کھاتا پھرتا ہوں۔ مجھے ایسا ویسا مت سمجھنا، بہت نامی گرامی ہوں۔ پاکستان کا بچہ بچہ میرے کرتوت (کارنامے) جانتا ہے۔" پھر اس نے اپنی پوٹلی کا ازار بند ڈھیلا کیا، اس میں سے چند چھوٹی چھوٹی بوتلیں نکالیں اور پھر گویا ہوا۔ "عزیزان من ! آنکھ اللہ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اکھ (آنکھ) ہے، تو لکھ (لاکھ) ہے، اکھ نہیں تو ککھ نہیں۔ جناب ! میں نے آپ کی پیاری پیاری آنکھوں کے لئے ایک نایاب سرمہ تیار کیا ہے۔ میں اس کا نسخہ عرض کئے دیتا ہوں، پڑھے لکھے لوگ اسے نوٹ کر سکتے ہیں۔ نسخہ یوں ہے کہ سمندری جھاگ ، گندھک، پھٹکڑی، نمک، کالی مرچ، سرخ مرچ، نیلا تھوتھا، گوند گتیرا، نیم کے پتے، کوئلہ اور کالے بکرے کی مینگنیاں۔ ان تمام اشیاء کو ہم وزن ملا کر ہاون دستے میں کوٹ کر ململ کے کپڑے سے چھان لیں۔ اس طرح سے تیار ہونے والے سفوف کو آک کے دودھ میں گوندھ لیں۔ پھر اس کا پیڑا بنا کر ایک کوزے میں ڈال کر ، ہوا بند کرکے کسی کوڑے کے ڈھیر میں دبا دیں۔ چالیس دنوں کے بعد نکالیں، سرمہ تیار ہو گا۔ آپ نسخہ کے مطابق سرمہ بنا سکیں تو بے شک بنائیں اور اگر کاہل اور کام چور ہیں تو ریڈی میڈ سرمہ مجھ سے لے سکتے ہیں۔ آنکھ سوجی ہوئی ہو، آئی ہوئی ہو، بہتی ہو۔ آنکھ میں کھرک ، دھند، جالا، پڑوال، ککرے، کالا موتیا یا سفید موتیا ہو۔ آپ مطالعہ کرتے وقت انتہائی قریب یا دور کرکے پڑھتے ہوں، سوئی کے ناکے میں دھاگہ ڈالنے میں دقت محسوس کرتےہوں تو ایک بار میرا تیار کردہ سرمہ ضرور آزمائیں۔ یہ سرمہ آنکھوں کے جملہ امراض کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ عینک سے آپ کی جان چھوٹ جائے گی، آپریشن سے بچ جائیں گے۔ آپ نے لاکھوں روپے خرچ کئے ہوں گے ، افاقہ نہیں ہوا ہو گا۔ یہ سرمہ آزمایا ہوا ہے اور لوگ اسے دور دور سے منگواتے ہیں۔ آپ اس سرمے کی صرف ایک ایک سلائی اپنی آنکھوں میں پھیریں، پھر دیکھیں قدرت کے نظارے، چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں۔ ایک ایک کے چار چار دکھائی نہ دیں تو مجھے جمعہ خان نہ کہنا، ہفتہ اتوار خان کہہ لینا۔ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں ۔ بعد میں ڈاک سے منگوائیں گے توا یک شیشی کا مول دس روپے ہو گا اور ڈاک خرچ اس کے علاوہ ہو گا مگر اس وقت صرف پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ نیم کی لکڑی سے بنی ہوئی سلائی مفت ۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔ ۔ ۔ ۔" وہ شیشیاں اور سلائیاں ہاتھوں میں پکڑ کے بندے تاڑنے لگا۔ "اگر فائدہ نہ ہو تو یہی سمجھنا کہ پانچ روپے کہیں گر گئے تھے۔ پانچ روپے، پانچ روپے۔"


(ناصر الرحمن ناصر)

6 تبصرہ جات:

Anonymous said...

بہت خوب کیا کہنے جی اپ کے انتخاب کے۔۔۔کامی

fey.sheen said...

ایف سولہ پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ اب جہازوں‌میں‌بھی سرمے بکنے لگے۔ پھر نیچے ٹیگز میں‌بس کا لفظ دیکھ کر ساری بات سمجھ میں‌آ گئی۔ اچھی تحریر ہے۔ بسوں میں‌بیٹھنے والے تو اکثر سنتے ہونگے۔

فائزہ said...

کامی شکریہ۔ ذرہ نوازی ہے آپ کی

فائزہ said...

ف۔ش۔
آپ نے پہچان ہی لیا۔
بلاگ پر خوش آمدید۔

MAHafeez said...

as

urdusky said...

بہت خوب