اے کراچی ملکِ پاکستان کے شہرِ حسیں
مرنے والوں کو جہاں ملتی نہیں دو گز زمیں
قبر کا ملنا ہی ہے اول تو اک ٹیڑھا سوال
اور اگر مل جائے اس پر دخل ملنا ہے محال
ہے یہی صورت تو اک ایسا بھی دن آ جائے گا
آنے والا دور مُردوں پر مصیبت لائے گا
مردماں بیسار ہونگے اور جائے قبر تنگ
قبر کی تقسیم پر مُردوں میں چھِڑ جائے گی جنگ
سیٹ قبرستان میں پہلے وہ مُردے پائیں گے
جو کسی مردہ منسٹر کی سفارش لائیں گے
کارپوریشن کرے گا اک روز ریزولوشن یہ پاس
کے ڈی اے اب مرنے والوں سے کرے یہ التماس
آپ کو مرنا ہے تو پہلے سے نوٹس دیجئے
یعنی جرمِ انتقالِ ناگہاں مت کیجئے
کچھ مہینے کے لئے ہوجائے گی تربت الاٹ
اس کے بعد آئے گا نوٹس چھوڑ دیجئے یہ پلاٹ
تربت شوہر میں اس کی اہلیہ سو جائے گی
"محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی"
ایک ہی تابوت ہو گا اور مردے آٹھ دس
آپ اسے تابوت کہیے یا پرائیوٹ بس
ایک ہی تربت میں سو جائیں گے محمود و ایاز
دور ہو جائے گا فرقِ بندہ و بندہ نواز
شاعر مرحوم جب زیر مزار آ جائے گا
دوسرے مردوں کو ہیبت سے بخار آ جائے گا
اس سے یہ کہہ کر کریں گے اور مردے احتجاج
ہم کو ہوتا ہے تمہاری شاعری سے اختلاج
خامشی شہرِ خاموشاں میں ہے دستورِ ازل
تم یہاں بھی چھیڑ دو گے غیر مطبوعہ غزل
ہم کہیں گے سو رہو، آرام کرنا فرض ہے
تم کہو گے ہو چکا آرام، مطلع عرض ہے
سرخیاں یہ ہونگیں جنگ و حرمت میں ڈان میں
ڈال لی ہیں جھگیاں ُمردوں نے قبرستان میں
رات وہ مُردوں نے ہنگامہ کیا زیرِ مزار
ایک مردہ جیل میں ہے ، دوسرا مردہ فرار
ایک مردہ بھاگ اٹھا چھوڑ کر گور و کفن
قبر پر مرحوم کی ہے قبضہء کسٹوڈین
برتری جاتی رہی ، حفظ مراتب مٹ گیا
ایک مردہ ایک پولیس والے کے ہاتھوں پِٹ گیا
رات اک تربت پہ دو مردوں میں سودا پٹ گیا
ایک مردہ پانچ سو پگڑی لے کر ہٹ گیا
ہم تو سمجھے تھے ہمی ہیں اس جہاں میں بیقرار
اُس جہاں والوں کو بھی ملتی نہیں راہِ فرار
صرف زندوں کو ہی فکرِ عیش و آسائش نہیں
اب تو اس دنیا میں مردوں کی بھی گنجائش نہیں
(دلاور فگار)
Thursday, October 15, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
0 تبصرہ جات:
Post a Comment